Pages

Labels

Thursday, October 25, 2012

کیا ہندوستان ہندو راشٹر بن سکتا ہے


کیا ہندوستان ہندو راشٹر بن سکتا ہے
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئ نے ایک بار پارلیامنٹ میں اظہارخیال کرتے ہوء ے کہاتھا کہ ہندوستان اس لئے ایک سیکولر ملک ہے کیوں کہ یہ ایک ہندواکثریتی ملک ہے اگر یہ مسلم اکثریتی ملک ہوتا تو سیکولر نہ ہوتا ،اسی بات کو مزید پر زور الفاظ میں بی ،جے ،پی کے قومی صدر نتن گڈ کری نے ایک ملاقات کے دوران مشہور صحافی کلدیپ نیر کے ساتھ پیش کیا ،جس کو نیر صاحب نے دس اکتوبر ۲۰۱۲ ؁ء کو اخبارات میں چھپے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے ،بقول ان کے نتن گڈکری نے یہاں تک کہا کہ اسلام سیکولرز کو جانتا ہی نہیں اور جہاں اسلام ہو گا وہاں سیکولرز نہیں ہوگا ،انہوں نے بھی اٹل بہاری واجپئ کی مانند انہیں کے الفاظ کو قریب قریب دہراتے ہوئے کہا کہ اگر ہندوستان مسلم اکثریتی ملک بن جا ئے تو وہ سیکولر نہیں رہے گا ۔
ان حضرات نے جو کچھ کہنا چاہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ،مغربی ممالک اور نام نہاد جدّت پسند اکثر اس بات کو لے کر مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی زیادہ جھوٹ بھی نہیں ہے ،ساتھ یہ سچ ایسا ہے کہ جسے لے کر کسی کو مورد الزام ٹھرایاجانا ٹھیک نہیں،لیکن معترضین کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلم اکثریت اس لئے اسلامی جمہوریہ بن جاتا ہے کیوں کہ اسلامی نظام میں مکمل سیکولرز سمایا ہوتا ہے ،اور ہندو اکثریت اس لئے ہندو اسٹیٹ نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہندو مذہبی نظام زندگی اس دور میں کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے ،میں آپ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ منو کا ورن نظام (ورن ویوستھا)کیا آج کل بھارت کے ہندو سماج ہی کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے ،سیکولر نظام زندگی میں ساری دنیا کے انسان برابر ہیں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں،لیکن کیا یہ اصول سیکولر زم کا ہے ؟ جب کہ اسلام نے سوا چودہ سو سال پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ سارے انسان برابر ہیں کسی کو کسی پرفوقیت نہیں ،کوئی عرب کا رہنے والا کسی عجمی پر فوقیت نہیں رکھتا ایسے ہی کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت نہیں ہے ،جب کہ ہندو نظام زندگی میں برہمن سب سے اوپر ہے ،اس کے بعد ویشیہ ہیں اور چھتریہ اور ان کے بعد شودر ہیں ،آخرالذکر کو وہ اختیارات حاصل نہیں جو اول الذکر کو حاصل ہیں ،اس ورنک نظام میں تعلیم کے حصول پر صرف برہمن کا قبضہ ہے ،ثانی الذکر تعلیم حاصل تو کر سکتا ہے وہ کسی کو تعلیم دے نہیں سکتا جب کہ شودر اگر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے سخت سزا کا قانون ہے وہ صرف پڑھنے پر ہی نہیں اگر وہ وید کے منتر سن بھی لے تو پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں ڈال دے نے کے احکامات ہیں ، دوسری جانب اسلام ہے جس نے دنیا میں سب کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا تھا ،الغرض ہندو نظام زندگی عہد حاضر کے ساتھ چلنے کی اپنی صلاحیت پورے طور پر کھو چکا ہے ،آج کے دور میں ہندو سماج ہی اُسے اپنے اوپر لاگو نہیں کر سکتا ،کیا بیوہ ہونے پر کسی عورت کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ شوہر کی چتا کے ساتھ ہی جل مرے ،کیا نظام عدل ذات ،برادری کی بنیاد پر قائم کیا جا سکتا ہے کہ برہمن کے لئے الگ قانون ہو اور دوسروں کے لئے الگ ،کیا اس دور میں کسی شودر کو تعلیم سے روکا جا سکتاہے ،یقیناََ نہیں ،اس دور میں جو قابل قبول ہے وہ صرف وہی ہے جسے اسلا م پیش کرتا ہے ،وہ یہ کہ پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کے مابین کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی ،اور انسانیت کو ورن ،پیدائش یا ذات برادری کی بنیاد پر اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان بانٹا نہیں جا سکتا نیز یہ کہ تعلیم کو کسی خاص گروہ کے لئے مخصوص قرار نہیں دیا جا سکتا اور کوئی عورت اگر بیوہ ہو جائے تو اس میں اس غریب کا کوئی قصور نہیں کہ اسے جلا کر ہلاک کر دیا جا ئے ،اس کے لئے دوسری شادی اچھا بدل ہو سکتا ہے اور جو کوئی اس کا سہارا بننے کے لئے اس سے شادی کرے گا وہ ثواب کا مستحق ہوگا ،ہاں اگر کسی سبب سے اس کی شادی نہ ہو سکے تو اس کے لئے سرکاری خزانے (بیت المال ) سے اس کی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے وظیفہ مقرر کر دیا جائے ،خیال رہے کہ آج ہمارے ملک میں بیوہ کے لئے ہو بہو یہی قانون ہے بیوہ سے اگر کوئی غیر شادی شدہ انسان شادی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک خاص رقم شادی کرنے والے کو دی جا تی ہے (یہ وہ چیز ہے جسے اسلام نے ثواب کہا ہے )اور اگر اس کی شادی نہ ہو پائے تو پھر اس کے لئے بیوہ پینشن کا بندوبست ہے جو سرکاری خزانے (بیت المال ) سے ادا کیا جاتا ہے ،یہ کلیہ طور پر اسلامی قانون ہے ،اب آپ اس کو سیکولرز کے نام سے اپنائیں یا کسی اور نام سے ،قانون تو یہ اسلام کا ہے جو اس نے سوا چودہ سو سال پہلے دنیا کے سامنے رکھ دیا تھا ،جہاں تک باتھ سیکولرز کی کے ہے تو جمعہ جمعہ آٹھ دن اُسے تو ابھی دنیا میں وجود پزیرہوئے دو چار صدی بھی نہیں گذری ہیں۔سیکولرز کیا ہے ؟ یعنی وہ طرز حکومت جس میں عمل کا دخل نہ ہو اور مذہب کے معاملے میں سب کو اپنی اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق ہو ،اس ضمن میں ہم قارئین کو بتانا چاہینگے کہ یہ قانون بھی سب سے پہلے اسلام نے دنیا کے سامنے رکھا کہ مذہب کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی ،چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ’’مذہب کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں کیا جائے ‘‘( )
دوسری چیز سیکولرزم میں جمہوری طریقے سے ارباب اقتدار کا انتخاب ہے ، یہ بھی اسلامی قانون ہے بلکہ اس کی داغ بیل ڈالنے والا بھی اسلام ہے ،قرآن کی سورہ آیت میں اس کی واضح ہدایت موجود ہے ،اس کے علاوہ نبی آخرالزماں کا اسوہ اس پر دلیل ہے کہ آپ نے ڑحلت فرمانے سے پہلے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود اپنا نائب مقرر نہیں کیابلکہ اس کو عام لوگو ں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ،لہٰذا خلفا ئے راشدین کا انتخاب بیعت کے ذریعہ ہوتا رہا ،بیعت کو آپ کھلا وؤٹ کہہ سکتے ہیں ۔یہاں ہم کو یہ اعتراف کر نے میں بھی کو ئی ہچکچاہٹ نہیں کہ بعد کے دور میں مسلم حکمراں اس پر عمل پیرا نہ رہ سکے ،اور وہ طاقت کے بل پر حکمراں بنتے رہے ،لیکن یہ ان کا ذاتی عمل تھا جس کے وہ خود جوابدہ ہیں ،اس سے اسلامی قانون پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
ہم نے اوپر چند مثالیں پیش کی ہیں ،ان کے علاوہ بھی آپ تجزیہ کریں تو پائینگے کہ سیکولرزم کا ننانوے فیصد سے بھی زیادہ حصہ اسلام سے مستعار ہے ،باقی ایک آدھ مثال اگر آپ کو ایسی ملے کہ جو اسلام کے مخالف ہو تو آپ ذرا غورتو کریں کہ وہ انسانیت کے لئے کہیں نہ کہیں نقصان کا سبب ہو گا ،لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہیں،ہم ان کا بھی کسی موقع سے ذکر کرینگے ،اب ہم یہاں پر اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے گڈکری جی سے یہ کہنا چاہینگے کہ محترم آپ کو اسلام پر انگلی اُٹھانے سے پہلے یہ بھی جان لینا چا ہیئے کہ اسلام ہی سیکولرز کا ماخذ ہے جبکہ ہندوتو اور سیکولرز میں تضاد ہے ،مزید تفصیل کے لئے دیکھیں راقم کی کتاب ’’ہندو راشٹر سنبھو یا اسنبھو (ہندی)‘‘