Pages

Labels

Sunday, March 4, 2018

do-rakat-ke-imam-urdu-book دو رکعت کے امام


قوم کیا چیز ہے ؟ قوموں کی امامت کیا ہے ؟=اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

- ''دو رکعت کے امام'' Urdu Book

ڈاکٹر محمد اسلم قاسمی (ایم ۔اے،پی۔ایچ۔ڈی)

'ऊर्दू पुस्तक  'दो रकात के इमाम''  का मशीनी रूपांतर / लिप्यन्तर

 P.D.F., 9-Mb Download Link here


مذہبی لبادے میں ملبوس دھوکے بازوں سے مسلمانوں کو خبردار کرنے کوشش


Dear USA visitor, for support amazon se kharidari is Link se karen
 پیش لفظ
offline Price Book 50 Rs.
online: amazon  Portal Fee+courier+Gst +Transaction= 300 Rs.
یہ بات پایائے تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ مغرب کی دنیائے عیسائیت نے صلیبی جنگوں میں اہل اسلام سے پے درپے شکست کھانے کے بعد محاذجنگ تبدیل کر کے مسلمانوں کی اس مذہبی طاقت کو ہی ختم کرنا چاہاجو اُن کی طاقت کا اصل سرچشمہ تھی ،تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اس میدان کا پہلا شحص رائمنڈ لَل (Raymondlul)نام کا عیسائی مفکر تھاجس نے اہل مغرب کو اس جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آؤایک پُر امن صلیبی جنگ شروع کی جائے جس کے اسلحے خالص روحانی ہوں لہٰذا انہوں نے اپنے یہاں مشرقی علوم کے بڑے بڑے ادارے قائم کئے جہاں اسلامی تعلیم کے ماہرین پیدا کرکے انہیں اس کام کے لئے مسلم ممالک میں بھیجاجاتا تھا کہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس کرعام مسلمانوں سے اسلامی اقدار کا خاتمہ کردیں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کیوں کہ ان سے مقابلہ کرنا گو کہ قدرے آسان تھا اور ان میں جنہوں نے سامنے آکر مقابلہ کیا ان کو علمأ اسلام نے دنداں شکن جوابات بھی دئے لیکن جوچھپ کر مسلمانوں کی صفوں میں گھسے اور مذہبی پیشوا بن کر مسلمانوں میں اسلام کی شکل میں عیسائیت ،مغریبت اور یہودیت بیچ گئے ان سے مقابلہ بہت مشکل تھا ،پھر ان کے جو خریدار ہمارے ہی درمیان کے افراد ہوئے جنہیں اس دور میں اُن کے سلیپر سیلس کہا جا سکتا ہے ان سے مقابلہ کرنا اور بھی مشکل ہے ،اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کی پہچان ہو ،اس کتابچہ میں ایسے دھوکہ بازوں کو پہچاننے کی ہی کوشش کی گئی ہے ،اس جدو جہد میں مجھے کہاں تک کامیابی مل سکی یہ بات توقارئین بتائینگے،میں صرف اتنا کہہ سکتاہوں کہ میں نے یہ مسودہ رائے جاننے کے لئے چند احباب کو بھیجا تو اکثر نے اسے اپنے دل کی آوازکہا انہیں میں سے میرے ایک محب خاص کرم فرماں’’ عمر کیرانوی‘‘ ہیں جنہوں نے کہا کہ میرے من کی بات چھین لی میں تو ایک مدت سے کہتا آرہاہوں کہ قرآن پڑھواصل دین تو قرآن میں ہے ۔
میں ان سبھی دوستوں کاشکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے میری کاوش کو سراہ کر مجھے حوصلہ بخشا بطور خاص ’’محمدعمر کیرانوی‘‘کا شکریہ جو ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ڈزائنر بھی ہیں اور انہوں نے سرورق کی عمدہ ڈزائننگ کر کے اس کتابچے کی شکل و صورت سنوارنے میں بھر پور تعاون دیا، میرے معاون خاص داعئ اسلام محمدجاوید عرف بھورا،اور ڈاکٹر مولانا محمد اخلاق قاسمی کا بھی شکریہ جن میں ثانی الذکر نے اردو ایڈیشن اور اول الذکر نے ہندی ایڈیشن کے مسودے کی عرق ریزی سے پروف ریڈنگ کا کام انجام دیا ۔ 
ڈاکٹر محمد اسلم قاسمی ،روڑکی 
--
  

یہ دو رکعت کے امام 

شہر میں چند مسلم ساتھیوں نے ایک پرائیویٹ این جی او کے بینر تلے نومبر ۲۰۰۷ ؁میں غریب ضرورت مندوں کو چند ایک لحاف تقسیم کئے جس کے کچھ فوٹو گرافس اس خاکسار نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دئے تھے اس پر کمینٹ کر کے کسی صاحب نے پوچھا کہ پیسہ امریکہ سے آیا تھا یا لندن سے پھر اسی شخص کا دوسرا کمینٹ موصول ہوا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کام امریکہ کے لئے کر رہے ہو یا اسرائیل کے لئے اس کے بعد اسی شخص نے تیسرے کمینٹ میں کہا کہ ہم جلد ہی مسجد مسجد جا کر عوام کو تم لوگوں سے ہوشیار رہنے کے لئے بیدار کرینگے ،اس شخص کے اس آخری کمینٹ سے اندازہوا کہ کمینٹ کر نے والا کوئی مذہبی لائن کا آدمی ہے تحقیق سے معلوم ہو اکہ جناب کسی مسجد میں امام ہیں۔
  ہماری بد اعمالیاں  

--قومی سطح پر بد اعمالیوں کی ابتدا،اخلاقی زوال سے ہو تی ہے ،اس دور کا مسلمان بد اعمالیوں کے آخری پائیدان پر کھڑا ہے ،وطن عزیز کی بات کریں تو ایک جانب صورتحال یہ ہے کہ مخالفین اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی اعلانیہ پلاننگ کر رہے ہیں ،اقتدار کی کرسیوں پر قابض لیڈران اور برادرانِ وطن کے مذہبی رہنما برادران وطن میں مسلم دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں ،مسجد کے باہر نمازیوں پر حملے سے موپ لانچنگ تک اور لو جہاد کی ا لزام تراشیوں سے ایک سال میں اِکّیس سومسلم لڑکیوں کو ہندو لڑکوں کی بہو بنانے کے اعلان تک اور سب سے بڑھ کر ملک کا آئین تبدیل کرکے سیکولر ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانے اور دوہزار پچیس یا دو ہزار پچاس تک ملک کو مسلمانوں سے خالی کرالینے کی ہرزہ سرائیوں تک کی باتیں کیاہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔
ماضی قریب میں برما کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوااُس نے وطن عزیز کے مسلم مخالفین کے حوصلوں کو ہوا دی ہے اور وہ یہاں پر بھی برما کی تاریخ دہرانے کے امکانات تلاش کر نے لگے ہیں ذرائع ابلاغ کے عروج کے اس دور میں بہت کچھ عام ہوجا تاہے ،برمامیں وہاں کی حکومت کی سرپرستی میں انجام دی جانے والی مسلم نسل کشی کے واقعات کی خبریں برما سے باہر نہ جائیں اس پر برماکی حکومت نے پہرے بٹھا ئے پھر بھی سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعہ وہاں پر مچی تباہی کی خبروں سے دنیاواقف ہو گئی ،لیکن اس نسل کشی پر دنیاوالوں کی خاموشی نے جہاں مسلمانوں میں مایوسی کاماحول پیدا کیا ہے وہیں مسلم دشمنوں کے حوصلوں کوبلند کر نے کا کام بھی کیاہے ،اس کی تائید میں سوشل میڈیاپر وائرل کچھ ویڈیو کِلِپس کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک ویڈیو کَلِپ میں بھگوا پوشاک میں ملبوس مذہبی لیڈر دِکھنے والا ایک شخص کہہ رہاہے ’’ شرم آنی چاہئے کہ برما ایک چھوٹا سا ملک ہے اس نے ایک جھٹکے میں دس لاکھ مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کیا ہے اور ہمارے لیڈر کچھ نہیں کر رہے ہیں‘‘ ایک دوسری ویڈیو کِلِپ میں کچھ سادھو سنت مریدین کو ہاتھ اُٹھواکر یہ عہد کراتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم مُلّا میاؤں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے،ایک اور کلپ میں برادران وطن کی عالمی تنظیم کے سیکریٹری کہہ رہے ہیں کہ مسلمان گجرات بھول گئے تو مظفر نگر تو یاد ہوگا ایک دیگر ویڈیو میں ایک لیڈر کہتا دِکھ رہا ہے کہ ہم دوہزار پچیس تک ملک کو مسلمانوں سے خالی کرا لینگے ۔
اور یہ خبر کہ برادران وطن کی عالمی تنظیم کے ذمہ داروں نے ایک سال میں اکیس سو مسلم لڑکیوں کو ہندو لڑکو ں کی بہو بنا نے کا نشانہ طے کیا ہے ،ملک کے ٹی وی چینلس پر بھی چلی ہے اور اخبارات کی زینت بھی بنی ہے ۔ 
یہ تو فریق مخالف کی سر گر میوں کی ایک معمولی جھلک تھی،معمولی اس لئے کہ یہ سب وہ خبریں ہیں جو عام ہوگئیں اور ہم ان سے واقف ہوگئے ،ظاہر ہے کہ جو برابر گھات میں ہے وہ خاموشی سے کیا کیا سازشیں کر رہا ہے اس کے بارے میں صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے ۔

دوسری جانب ہم مسلمان ہیں جن کو مٹاکر رکھدینے کے لئے دشمن طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے لیکن، ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ سے بھی کچھ نہ سیکھ سکے کیوں کہ ہم اپنی تاریخ بھی تو نہیں پڑھتے لہٰذا وہ سب کچھ کر نے پر لگے ہیں جو اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور پوری قوم اس کی سزا بھگت چکی ہے گویا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، مشہور اسلامی مورخ نسیم حجازی کی زبان میں کہ۔
جب اسلام دشمن تاتاری عالم اسلام پر آخری ضرب لگانے کے لئے اپنی تلواریں اور نیزے درست کر ہے تھے اس وقت بغداد میں اسلام کے نام لیوا صرف یہ جاننے کے لئے بے قرار تھے کہ کس فرقے کے علمأ کی زبان کے نشتر دوسروں کی بنسبت 
زیادہ تیز اور زیادہ زہر آلود ہیں۔ ( آخری چٹان ص ۳۵۷ ) 
تین کام، کرنے کے اگر آپ اس بات پر غور کریں کہ اس طرح کے حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے تو یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کے مابین اجتماعیت اور اتحاد پیدا ہو،کیوں کہ ریشے جب جدا جدا ہوتے ہیں تو بہت کمزور ہوتے ہیں اور معمولی طاقت سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن جب مل کر رسی بن جا تے ہیں تو انہی کمزور ریشوں کو توڑنا مشکل ہو جا تا ہے ،اجتماعیت ہو گی تبھی تو ہم مل بیٹھ کر دشمن کی سازشوں کا توڑ یا اس کے حملوں سے بچاؤ کی تدابیر سوچ سکتے ہیں ،دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے میں کے اقتصادی ،سماجی سیاسی اور تعلیمی طور پر کمزور لوگوں کو طاقت ور بنانے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنی کمزور ی کے سبب دشمن کا آسان لقمہ نہ بن سکیں ،تیسرا کام جس کا خاص تعلق ہم وطنوں سے ہے یہ ہے کہ ا سلام اور مسلمانوں کے تعلق سے پھیلائی جا رہی غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی جا ئے ،کیوں کہ مسلمانوں کے ساتھ ملک بھر میں جو بے رحمی کا سلوک کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں موپ لانچنگ جیسے حادثات ہو رہے ہیں اس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ کچھ مفاد پرست فرقہ پرستوں نے سیاسی فائدے کے لئے عام غیر مسلموں کے ذہنوں کو اسلام اور مسلمان کے تئیں نفرت سے بھر دیا ہے جس کی بنیاد جھوٹ اور بہتان پر ہے جیسے یہ کہ مسلمان شدت پسند ہوتا ہے ،وہ اس ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ،وہ چار چار بیویاں رکھ کر زیادہ بچے پیدا کرتا ہے اس سے وہ اپنی آبادی بڑھا کر ملک پر اپنا غلبہ چاہتا ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔
ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں اور ہمیں ان کی مدلل تردید کرنی چاہئے کیوں کہ عوام کے دماغ میں بیٹھی افواہیں بہت خطرناک ہوتی ہیں جیسے گرگٹ کے بارے میں عوام کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ اسے مارنا ثواب ہے تو بس لوگ ،خاص طور پر بچے اسے جہاں پاتے ہیں مارنے دوڑتے ہیں اس کے پیچھے کی سچائی کیا ہے اسے کوئی جاننے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا جو مختلف علاقوں میں الگ الگ بیان کی جاتی ہیں جب کہ سچ یہ ہے کہ ان میں سے سب افواہیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔
جب حالات ایسے ہوجائیں جیسے اس دور میں بطور خاص وطن عزیز میں مسلمانوں کے ہیں تو قوموں کی صورتحال کیا ہوتی ہے اسے مشہور عالم دین مولانا سجاد نعمانی کے الفاظ میں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ،یہ اقتباس ان کی ایک تقریر سے لیا گیا ہے جو انہوں نے فروری ۲۰۱۸ء میں مہاراشٹر کے شہر احمد نگر میں کی تھی اور اس کا متن ماہنامہ الفرقان میں شائع بھی ہوا تھا ۔
یہ ہماری تاریخ کا ایک ا ہم مرحلہ ہے، اگر اس وقت قوم کو دوسری حکمت عملی کی طرف نہیں لے جایا گیا تو قوم ہار مان جائے گی، شکست کھا جائے گی، اور اس کے بعد
پھر قوموں کا اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے، قوم اگر ہار مان جائے اور اندر سے ٹوٹ جائے، تو پھر اس قوم میں ارتداد اور بغاوت پھیلنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے 
ہیں، مایوسی ارتداد تک اور غصہ دہشت گردی تک لے جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کہا:کہ ........ خدا کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں یعنی مایوسی کفر و ارتداد تک لے جاتی ہے اور لے جا رہی ہے۔توجہ سے سنیے! میں یہ نہیں کہ رہا ہوں کہ لےجائے گی، میں کہ رہا ہوں مایوسی کفر تک لے جا رہی ہے۔ہمیں پتا نہیں کہ اب مسلمان جئے شری رام کے نعرے لگانے میں فخر محسوس کر رہا ہے، پانچسو روپیے میں ایمان بیچا جا رہا ہے دوسری طرف جو غصہ اور فرسٹریشن ہے وہ لے جاتا ہے اس طرف جس کوآج کل کی اصطلاح میں دہشت گردی کہتے ہیں اور یہ دونوں راستے ہلاکت کے ہیں فاضل مقرر نے جس ارتداد کی بات کی اسے آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بی بی سی نیوز سروس کی خبر کے مطابق ۴جولائی ۲۰۱۷ ؁ء کو جھارکھنڈ کے شہر بیگو سرائے میں انور نام کے ایک مسلمان نام بدل کر آنند بھارتی بن گئے انہوں نے اپنے دوبیٹوں عامر اور سمیر کو بھی امن بھارتی اور سُمن بھارتی بنا لیا ،انہوں نے اس کا حلف نامہ بھی عدالت میں پیش کیا اور شہر کے بشمبر مندر میں جاکر اپنے ہندو بننے کا اعلان بھی کیا ۔
دوسری دل دہلا دینے والی خبر مہاراشٹر سے آئی جہاں ایک آر ٹی آئی سے پتہ چلا کہ گزشتہ چار سالوں میں پورے مہاراشٹر سے ۲۶۳مسلمانوں نے اسلام چھوڑ کر ہندو بن جانے کا سرکاری طور پر اعلان کیا ،یہ خبر دلی سے شائع ہونے والے ہندی ہفت روزہ اخبار’’ کانتی‘‘ کے ۴تا ۸ فروری ۲۰۱۸ ؁ء کے شمارے میں شائع ہوئی ۔
آزادی سے پہلے مبینہ طور پر مسلمانوں کو مرتد کرنے کی تحریک ’’شدھی تحریک‘‘کے نام سے شروع ہوئی تھی جسے اس وقت خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی ،لیکن اِس وقت حالات ایسے کیوں پیدا ہوگئے کہ ہم مذکورہ قسم کی خبریں سننے کو مجبور ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پختہ ایمان رکھنے والا مسلمان کبھی اس طرح کی سازشوں کا شکار نہیں ہو سکتا مگر دبے کچلے کمزور ،غریب اور نادار افراد کو شیطانی طاقتیں اپنا لقمہ بنا لیتی ہیں اس کی ذمہ داری ان مسلمانوں پر ہے جو کمزوروں اور غریبوں کی سدھ نہیں لیتے اور انہیں شیطان کا آسان شکار بننے کے لئے بے یار ومدد گار چھوڑے رکھتے ہیں ۔
ایسے حالات میں اگر ہم کو اس ملک میں عزت و و قار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو مذکورہ بالا تین کام کرنے انتہائی ضروری ہیں، واضح ہو کہ یہ تینوں کام قرآن کریم کی تعلیم سے اخذ کئے گئے ہیں ، اگلی چند سطور میں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں مذکورہ تینوں امورکی مزید وضاحت پیش ہے ۔-

نمبر ایک ’’اتحاد ملت‘‘
قرآن حکم کرتا ہے کہ فرقو ں میں نہ بٹو (سورہ آل عمران آیت ۱۰۳) اور یہ وارننگ بھی دیتا ہے کہ اگر ایسا کرو گے تو تمہاری ہوا اُکھڑ جا ئیگی اور تم بزدل ہو جاؤ گے (سورہ انفال آیت ۴۶)اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی ارکان کلمہ، نماز ،زکوٰۃ،روزہ اورحج ہر ایک میں بذات خود اجتماعیت کی تعلیم موجودہے ۔
نمبر دو ’’خدمت خلق ‘‘
یعنی اپنے درمیان کے کمزوروں ،غریبوں ،مسکینوں کو اوپر اُٹھانے کی کوشش کر نا ۔
قرآن کریم میں سو سے زیادہ مقامات پر ،کمزوروں ،غریبوں ،یتیموں ،مسکینوں کی مدد کرنے کا حکم زکوٰۃ و صدقات کے حوالے سے کیا گیا ہے اس کے علاوہ انفاق (راہ خدا میں مال خرچ کرنا ) کی تاکید مختلف مقامات پر نظر آتی ہے پہلی ہی سورۃ کی ابتدائی چند آیات میں متقین کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں وَمما رَزَقناھم یُنفقون اور یہ امت خرچ بھی بہت کرتی ہے لیکن کوئی بہتر نظام نہ ہونے کے سبب غریبوں ،مسکینوں اور ضروتمندوں تک ان کا حق پہنچنے سے رہ جاتا ہے لہٰذا اس امر پر خصوصی توجہ دے کر اسے منظم کرنے کی شد یدضرورت ہے۔
نمبر تین ’’دعوت الی اللہ ‘‘
یہ ایک عمومی کام ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں سبھی میں کر نے کا ہے،مسلمانوں میں بغرض اصلاح اور غیر مسلموں میں بغرض دعوت دین،قرآن کریم میں اس کے تفصیلی احکامات موجود ہیں ۔
جب ہم غیر مسلم کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کرتے ہیں تو دو میں سے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے ،یا تواللہ اسے ایمان کی توفیق دے دیتا ہے ورنہ اسلام کے بارے میں اس کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور اُس نفرت میں کمی آتی ہے جو اس دور میں جان بوجھ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جا رہی ہیں اور انہیں نفرتوں سے موپ لانچنگ جیسے حادثے پیش آتے ہیں ۔
یہ سب وہ چیزیں ہیں کہ معمولی عقل و دماغ رکھنے والا بھی ان کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔
بہر حال کچھ تو مذکورہ باتوں کی اہمیت کے مد نظر اور کچھ اس بات کے مد نظر کہ قوم کا ہر لیڈر چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہر ایک یہ کہتا ہے کہ مسلمانو ں میں انتشار بہت ہے اور جب تک وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا نہیں کرینگے ان کے مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں ،یہ بات کہتے تو سب ہیں لیکن اس کا لائحۂ عمل کیا ہو اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا ، ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہو ئے اس خاکسارنے اپنے شہر میں چند ساتھیوں کے ساتھ مقامی طو ر پر ’’اتحاد ملت‘‘ کے نام سے ایک سوسائٹی تشکیل دی جس کے لئے طے کیا گیا کہ ہر ہفتے اس کی میٹنگ ہو جس میں سب سے پہلے قرآن کریم کا کچھ حصہ سمجھ کر پڑھا جا ئے،پھر ہفتے بھر کے کام کا جائزہ اور آگے کا لائحہ عمل طے کیا جا ئے ، اور یہ بھی طے پایا کہ شرکاء میں سے ہر ایک ہر ہفتے حسب استطاعت کچھ نہ کچھ رقم بھی جمع کرے جس سے حتی المقدور کسی حد تک غریبوں کی مدد کی جا سکے ،شروع میں ہم نے جس لحاف تقسیم پروگرام کا ذکر کیا وہ اسی کے تحت انجام دیا گیا تھا ،جس پر ایک مسجد کے امام صاحب اس قدر بھڑکے کہ انہیں اس کام میں مسلم دشمنوں کی سازش نظر آنے لگی ۔
امت دو رکعت کے اماموں کے نرغے میں اس وقت پوری امت علامہ اقبال کی خاص اصطلاح ’’دو رکعت کے امام‘‘ کے نرغے میں ہے جو نہیں چاہتے کہ سماج میں اسلامی تعلیمات پر اس طرح کا عمل ہو کہ کچھ تبدیلی آجائے ،وہ بس اسی قد ر کا کام چاہتے ہیں جس سے ان کی روزی روٹی چلتی رہے ،اس لئے چاہے آپ قرآ ن ہاتھ میں لئے انہیں یہ بتاتے پھر جائیں کہ دیکھو میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کا حکم قرآن کریم کی اِس اور اُس آیت میں ہے پھر بھی وہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہونگے کہ ان کے علاوہ کوئی اور بھی دین کا کام کر سکتا ہے ،کیوں کہ ہندؤں کے برہمنوں کی طرح مسلم سماج میں بھی ان کا اِجارہ جو قا ئم ہو چکا ہے ۔
دو رکعت کے اماموں نے ڈبویا ملت کا سفینہ ان ہی دو رکعت کے اماموں نے ملت کا سفینہ ڈبویا ہے ،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سے ملت ان کے سکنجے میں آئی ہے تب سے وہ زوال و انحطاط کاشکارہے ، انہوں نے امت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ اب اس کے اُبھر نے کی دور دور تک کوئی شکل نظر نہیں آتی،ایک دور تھا جب امت مسلمہ بلا شرکت غیرے دنیا کی سپر پاور تھی اور ایک طویل عہد ایسا گذرا ہے جب اس نے اقوام عالم کی امامت کے فرائض انجام دئے ہیں دشمن نے اس کی طاقت کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس وقت تک کامیاب نہ ہوسکاجب تک وہ’’دورکعت کا امام‘‘ بن کر نہ صرف ہماری صفوں میں داخل ہوگیا بلکہ ہمارا پیشوا اور راہنما بن بیٹھا اور ہم اسی دشمن کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے رہے ، اس طرح کی مذہبی قیادت نے ہی ملت کا بیڑہ غرق کیاہے ،شاید بہتوں کو یہ سچ کڑوا لگے لیکن یہ سچ واقعی سچ ہے اور یہ صرف میرا ہی دعویٰ نہیں ہے بلکہ ملت کے مفکراعظم شاعر مشرق ’’علامہ اقبال‘‘ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اُسے اپنے ایک شعر میں یوں کہا ہے کہ ۔
نہ جانے ،کتنے سفینے ،ڈبو چکی، اب تک 
فقیہ و صوفی و ملا کی نا خوش اندیشی 
بات کڑوی ہے مگر سچ ہے جس کے تاریخی ثبوت موجود ہیں ،آئیے تاریخی ثبوتوں کے ساتھ میں یہ دعویٰ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، کوئی معمولی علم رکھنے والا بھی از خود تاریخ کے صفحات سے اس دعوے کی تصدیق کر سکتا ہے ۔ 
ملت اسلا میہ نے اپنی تشکیل کے وقت سے کم و بیش ایک ہزار سال تک اس دنیا میں سپر پاور کا رول ادا کیا، اس کی زبانیں عربی اور فارسی کو انٹرنیشنل زبانیں تسلیم کیا جا تا تھا ،ان کے علوم کا ہی دنیا میں چرچا تھا دنیا کے کسی بھی کونے سے اگر کوئی علم کی پیاس بجھانے اٹھتا تو وہ مسلمانوں کے قائم کردہ علمی اداروں کا ہی رخ کرتا تھا ،وہ ہی دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت تھے جس کے نتیجے میں پوری دنیا ان کے سامنے نہ صرف سر نگوں تھی بلکہ انہیں خراج بھی ادا کیا کرتی تھی ،چنانچہ عباسی خلیفہ’’ ہارون رشید‘‘ کے وہ الفاظ جو اس نے ایک چلتے ہوئے بادل کے ٹکڑے کو دیکھ کر کہے تھے کہ تو چاہے جہاں جا کے برس ،تیرے برسنے سے زمین میں جو کچھ بھی پیدا ہوگا اس کا خراج میرے ہی پاس آنا ہے ،تاریخ کے صفحات میں درج ہیں ،مگر شیطان بھی تاک میں تھا جو ازل میں ہی اللہ کے حضور یہ چیلنج کر کے آیا تھا کہ میں تیرے ان بندوں کو گمراہ کر نے کی کوششوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا ( قرآن سورہ حجر ۳۹ ؍سورہ ص ۸۲)بالآخر اس نے دو رکعت کا امام بن کر کم ازکم تین موقعوں پر ملت کو ایسی ضرب لگائی ہے کہ اس کا شیرازہ ہی نہیں بکھرا بلکہ لٹیا ہی ڈوب گئی لٹیا بھی ایسی ڈوبی کہ ملت ملت نہ رہی ،اب ہمیں جوکچھ نظر آرہا ہے وہ ملت نہیں بلکہ کسی بڑی شئے کے ڈوبنے کے بعد ڈوبنے کی جگہ سطح سمندر پر جو جھاگ نظر آتے ہیں محض وہ جھاگ باقی ہیں ،یہ ایک تلخ حقیقت ہے آپ چاہیں تو کہنے والے کو گالیاں دے لیں ،اس سچائی کو تسلیم کر نے سے انکار کردیں لیکن اس سے تاریخی سچائی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ملت کی تباہی کے تین مواقع اپنے اس دعوے پر میں تاریخ سے تین مواقع کی نشاندہی کروں گا جو ایک ذی شعور اور غیر جانب دار انسان سے یہ تسلیم کروانے کے لئے کافی ہے کہ کہنے والے کی بات میں دم ہے لیکن اس سے پہلے یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جن ’’دورکعت کے اماموں ‘‘ نے ملت کا سفینہ ڈبویا ہے ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ملت کے ڈوبے ہوئے سفینے کو نکال لائیں گے یا نکالنے کی فکر وکوشش کرینگے عقلمندی نہیں ہے ہاں کچھ امید ہے تو ان غیر جانب دار فکر کے حامل نوجوانوں سے ہے جو سر میں غور وفکر کرنے والا دماغ اور سینے میں ملت کے لئے تڑپنے والا دل رکھتے ہیں ،وہ اللہ کی اُس کتاب(قرآن کریم) کو پڑھیں اور سمجھیں جس کے سمجھنے پر عام آدمی کے لئے اِن دو رکعت کے اماموں نے اس لئے قدغن لگا رکھا ہے کہ کہیں عام آدمی حقیقی دین سے واقف ہو کر ان کے چنگل سے نہ نکل جائیں اور خود فیصلہ کرلیں ،کیوں کہ قرآن دشمنوں کی دست و برد سے محفوظ ہے اور اس کی تو حفاظت کا ذمہ ہی خود پروردگار نے لیا ہے ۔
اب تاریخ کے ان تین مواقع کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جن موقعوں پر’’ دو رکعت کے اماموں ‘‘نے ملت کاسفینہ ڈبویا ہے جن کا ذکر شاعر مشرق علامہ اقبال نے مذکورہ شعر ( نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک ۔ فقیہ و صوفی و ملّا کی نا خوش اندیشی) میں کیا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دورحاضر میں مغرب کی عیسائی دنیا کو اس کائنات میں’’ سپر پاور‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،علمی ،اقتصادی اور عسکری تینوں طاقتیں ان ہی کے پاس ہیں( اور یہی تینوں طاقتیں وہ ہیں جو کسی قوم کو سپر پاور بناتی ہیں) اسی طرح یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جسے دوست دشمن سب تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائی دنیا سے پہلے مسلم دنیا اس کائناتِ رنگ و بو میں سپر پار تھی ،انہیں کا علم علم تھا انہیں کی زبان ’’عربی‘‘ انٹرنیشنل زبان تھی دنیا میں انہیں کا ورلڈ آرڈر چلتا تھا ،وہ ہی دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت تھے ،دنیا کی اقتصادیات پر بھی انہیں کاقبضہ تھا ،ان کے ہاتھوں سے اس تمغے کو چھین کر اسے مغرب کی عیسائی دنیاکے ہاتھوں میں تھمانے کا کام انہیں ’’دو رکعت کے اماموں ‘‘نے کیا ہے ،یہ محض الزام نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے اسے کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے تونہ کرے اس کی سچائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گااور یہ سچ سچ ہی رہے گا،یہ کڑوا سچ تاریخ کی کتابوں میں اس قدر واضح لفظوں میں درج ہے کہ کوئی آنکھیں بند کر کے بھی اس کے دکھائی نہ دینے کا بہانہ نہیں کر سکتا ۔ 
پہلا موقع 
۱۴۵۰ ؁ ء میں یوروپ کے ملک جرمنی میں پریس (چھاپہ خانہ ) کی ایجاد ہوئی تو’’ دو رکعت کے اماموں ‘‘نے اسے ایجادِ کفار کہہ کر مسلم دنیا میں حرام قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی ،یہ دور وہ تھا جب کتابیں جو علم کی اشاعت کے لئے بنیاد کا پتھر ہیں ،محض مخطوطات (ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودے) کی شکل میں شاہی کتب خانوں یا کچھ مخصوص علمی شخصیات کے پاس ہی موجودہوتی تھیں اور عام آدمی کی ان تک پہنچ ناممکنات میں سے تھی ،یورپ میں پریس کی ایجاداور مسلم دنیا میں اس پر پابندی سے یہ ہوا کہ ایک جانب یعنی مسلم دنیا میں تو صورتحال ویسی کی ویسی ہی رہی جبکہ دوسری جانب یعنی عیسائی دنیا میں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر اقوام میں بھی کتابیں چھاپے خانوں میں چھپ چھپ کر عام سے عام آدمی کے ہاتھوں میں سستے داموں پہنچنے لگی،یہ علمی خزانہ وہی ہوتا تھا جسے اہل یورپ مسلمانوں سے سیکھتے تھے جسے بغداد اور قرطبہ کے علمی اداروں میں دو زانوں ہو کر عیسائی اور یہودی تشنگان علوم نے حاصل کیا تھا ،یہ وہی صورتحال تھی جس کا تصور اقبال جیسے شاعر کو تڑپا کر رکھ دیتا ہے اور وہ اسے یوں شعر میں ڈھال دیتے ہیں۔ 
وہ علم کے موتی کتا بیں اپنے آباء کی 
جو دیکھا ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ایک ہزار صفحات کی ایک کتاب کو ہاتھ سے لکھنے یا اس کی نقل تیار کرنے میں ایک محنتی سے محنتی انسان کے بھی آٹھ دس مہینے ضرور صرف ہونگے جب کہ اسی ضخامت کی ایک ہزار کتابیں پریس میں ایک یا دو گھنٹوں میں چھاپی جا سکتی ہیں ۔
’’دو رکعت کے اماموں ‘‘کے اس ایک فتوے کا اثر یہ ہوا کہ یوروپ کی عیسائی دنیا کے گھر گھر میں علم کے چرچے ہو نے لگے معمولی سے معمولی انسان کے گھر میں کتابوں کی شکل میں علمی خزانوں کا ڈھیر لگنے لگا ،بلکہ بڑے بڑے مسلم دانشوروں ،فنکاروں اور علمی شخصیات کے ہاتھوں کے لکھے مخطوطے جو مخصوص گھروں میں یا دور دراز کی لائبریریوں میں علمی شاہکار کی شکلوں میں موجودتھے اور چند مخصوص ہاتھ ہی ان تک پہنچتے تھے، انہیں یورپ کے عیسائی اور یہودی علمأ نے پریس میں چھاپ چھاپ عام کر دیا حتیٰ کہ آج یہ بات مسلم علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ابن بطوطہ ،ابن جبیر ،اسحاق بن حنین ،الکندی ، ابن رُشداورا بن خلدون جیسے کتنے ہی مسلم علمأکی معرکۃالآری تصانیف کو اگر یوروپ کے یہودی اور عیسائی علمأ اپنے چھاپے خانوں میں چھاپ کر عام نہ کرتے تو مسلم دنیا بھی ان سے واقفیت حاصل نہ کر پاتی ۔
یورپ کے یہودی اور عیسائی علمأ نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ مسلم دنیا کی علمی شخصیات کے علمی کارناموں کو یہاں تک کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی مذہبی کتابوں کو عربی میں بھی اور ان کا ترجمہ کر کے اپنی زبانوں میں بھی خوب چھاپا اور گھر گھر پہنچایا ،خود پڑھا اور دوسروں کو پڑھوایا اور ان میں جہاں جہاں چاہا اپنے مطلب کا حذف و اضافہ بھی کیا چنانچہ یہ تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ حدیث کی مشہور معروف کتابیں بخاری،موطأ امام احمد ابن حنبل اورتاریخ طبری اور ان جیسی کتنی ہی کتابیں از خود آڈٹ کر کے یورپ کے عیسائی اور یہودی علمأ نے شائع کیں ،تفصیل کے لئے دیکھیں۔ 
’’اسلام اور مستشرقین ‘‘جلد اول و دوئم، از۔ سید صباح الدین ، مطبوعہ۔ شبلی اکیڈمی، اعظم گڈھ 
یہ تھا وہ پہلا موقع جس میں دو رکعت کے اماموں کے ایک فتوے نے علم کی دولت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکال کر غیر مسلم دنیا میں منتقل کردی اور یہ صورتحال کم و بیش ڈھائی سو سال رہی جس نے علم کے میدان میں ملت کا سفینہ پوری طرح غرق کر دیا اور یورپ کے عیسائیوں اور یہودیوں کو علم کی دولت سے مالا مال کر دیااور وہاں کا عام سے عام انسان عالم فاضل محقق اور موجد بننے لگا ،لہٰذا آج ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ وہ بہت سے افراد جنہوں نے انسانی دنیا کو زندگی کی کایا پلٹ دینے والی ایجادات سے نوازا ان میں سے کوئی ایک معمولی بڑھئی کا لڑکا تھا اور کوئی کسی کباڑی کی اولاد تھا جو رَدّی میں آنے والی پھٹی پرانی کتابیں اٹھا کر پڑھتا تھا تو کوئی معمولی کسان کا لڑکا تھا جو کتابیں کرائے پر لا کر ان کا مطالعہ کر نے کا شوقین تھا ،وغیرہ وغیرہ ۔
یہ تھا وہ پہلا موقع جس نے صورتحال کو ایک دم اُلٹ کے رکھدیا تھا اور علمی خزانے کو ایک قوم کے ہاتھوں سے چھین کر دوسری قوم کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا جس کی وجہ دورکعت کے اماموں کا صرف ایک فتویٰ تھا جس کی بنا پر عالم اسلام میں لگ بھگ ڈھائی سو سالوں تک چھاپے خانے پر مذہبی پابندی عائد رہی ،اٹھارویں صدی میں ایک نو مسلم جرمن نے پھر سے ترکی کے شہر استنبول میں چھاپہ خانہ قائم کر نے کی کوشش کی تو وہاں کے مفتئ اعظم نے اس شرط پر اس کو اجازت دی تھی کہ اس میں قرآن مجید اور دینی کتابیں نہ چھاپی جائیں ۔ دیکھیں ۔
’’ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ‘‘از ۔ثروت صولت ،جلد دوئم ،ص ۴۴۴،مطبوعہ،مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی
دوسرا موقع 
علمی طاقت کے زائل ہو جانے کے بعد مسلمانوں کی عسکری اور فوجی طاقت کو توڑنے کا نمبر تھا جس کے لئے دشمن نے پوری تیاری کر لی تھی عیسائی دنیا میں علم کا دریا ئے عام بہہ جانے کے نتیجے میں طرح طرح کی ایجادات سامنے آنے لگی تھیں ،بارود تو مسلمانوں کی ایجاد تھی اور اس کا توپ میں پہلا استعمال بھی مغل حکمراں بابر نے کیا تھا لیکن اس کو چھوٹے اور عام ہتھیار کی شکل دے کر ہر ایک فوجی کو اس سے مسلح کر دینے کا کام سب سے پہلے عیسائی دنیا میں ہوا جسے سنگین یا بندوق کا نام دیا گیا اور ایک موقع وہ آیا جب عام سپاہی کو تلوار کی جگہ بندوق سے مسلّح کیا جا نے لگابس یہ سب سے اچھا موقع تھا مسلمانوں کی عسکری طاقت کو ختم کر نے کا لہٰذا دو رکعت کے اماموں نے فتویٰ دیا کہ میدان جنگ میں بندوق اور سنگین کا استعمال حرام ہے کیوں کہ ہمارے آبأو اجداد نے تیر و تلوار سے جنگ کی ہے اس لئے صرف انہیں روایتی ہتھیاروں کا استعمال جائز ہے اس کے علاوہ ان تمام فوجی اصلاحات کو ناجائز قرار دیا جو وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ضروری سمجھی جاتی تھیں جیسے فوجیوں کے لئے چست لباس اور سر پر ہیٹ وغیرہ ، (حوالہ ،مذکور ص ۴۴۸)
یہ دور وہ تھا جب مسلم دنیا کی قیادت ترکی کے ہاتھوں میں تھی ،وہی ترکی جس نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے عیسائیوں کے اس مِتھ کو چکنا چور کر دیا تھا کہ پوپ اعظم کی روحانی طاقت کودنیا کی کوئی عسکری طاقت زیرنہیں کر سکتی وہ ترکی جس کی عسکری طاقت کے آگے یوروپ تھرّا تاتھا جو پوری دنیا میں سب سے بڑی عسکری طاقت ہو نے کے سبب مسلمانوں کی عظمت کا نشان تھا اور پوری امت مسلمہ کے لئے ڈھال کا کام بھی کرتا تھادورکعت کے اماموں کے ایک فتوے نے اس کی تمام فوجی و عسکری طاقت کو چکنا چور کر کے رکھ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت تھی اسے یورپ کا مرد بیمار کہا جا نے لگا اب یورپ کی عیسائی دنیا کے لئے اچھا موقع تھا جو پانچ سو سال تک صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کا بال بانکا نہ کر سکے تھے جو مسلمانوں سے مذہب کے نام پر جنگیں لڑتے لڑتے تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی خلافت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تمام عیسائی ممالک تو اس کے ہاتھ سے نکالے ہی، اس کی دست نگر کے مسلم ممالک پر بھی قبضہ کر کے انہیں بھی آپس میں تقسیم کر لیا ،اس بندر بانٹ میں مسلم ممالک کی سرحدیں تک انہوں نے اپنی مرضی سے طے کیں اور اس طرح پورے عالم اسلام کے حصے بخرے کر کے اسے کمزور کردیا ،ترکی بھی ہاتھ سے چلا جا تا اگر اس وقت کا ترکی فوج کا اعلی کماندار ’’مصطفی کمال اتاترک ‘‘پروانۂ ہزیمت پر دستخط کر نے والے خلیفۂ وقت اور یوروپ کے اتحادیوں سے بغاوت کرکے ترکی کو بچانے کی کوشش نہ کرتا ،مصطفی کمال اتاترک جسے آج یہودی کی اولاد ،فاسق ،فاجر اور منافق قرار دیا جا تا ہے اس نے اپنی تگ و دو سے ترکی تو بچا لیا لیکن وہ اسلام کی نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گیا کیوں کہ دو رکعت کے اماموں کے رویے نے اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دیتی تھی کہ جو مذہب اپنی ملت کو مضبوط نہیں کمزور کرے اور اپنے اعمال سے دشمنوں کے لئے آسانیاں فراہم کرتے ہوئے ملت کو ان کے لئے آسان لقمہ بنا کر پیش کردے وہ مذہب کسی کام کا نہیں ،نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مذہب بیزار اور اسلام بیزار ہو گیا ،مسجدیں بند کر دی گئیں، مدرسوں پر تالے ڈال دئے گئے ،نماز پر پابندی لگا دی گئی ،اور وہ فوجی جو صبح شام قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے انہوں نے قرآن کے اوراق پھاڑ پھاڑ کر ،العیاذ باللہ قرآن کو قدموں کے نیچے روندا ،یہ’’ دو رکعت کے امام‘‘ وہ ہیں جنہوں نے کبھی ہاتھ کی گھڑی کو ناجائز کہا کبھی ریڈیو سننے کو حرام قرار دیا کبھی مائک (لاؤڈ اسپیکر )کے خلاف فتوے دئے اور آج وہ خود ان اشیأ کا بھر پور استعمال کرتے ہیں، ان اشیاء کو حرام قرار دینے کے بعد وہ پھر کب اور کیسے حلال ہو گئیں اس کا کسی کو کچھ پتا نہیں ۔
تیسرا موقع 
تیسرا اور آخری موقع جس نے ملت کا تیا پانچا کر کے اس کے شیرازے کو ایسا منتشر کیا کہ اس کا وجود ہی ختم ہو گیا اور اس موقع پر ملت کا سفینہ ایسا ڈوبا کہ اس کے بعد ملت کا کہیں اتا پتہ نہیں ہے ،اس موقع کو آپ بھی تاریخ کے اوراق میں تلاش کیجئے آپ خود تسلیم کر لینگے بشرطیکہ غیرجانب داری کا لباس زیب تن کر کے سمندر کی لہروں کی زد سے نکل کر ساحل پر آجائیں ۔
یہ کون سا موقع ہے ؟ جب ہم اسے اسلامی تاریخ میں تلاش کر تے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ وطن عزیز میں امیر خسرو تک ایک طرح کا اسلام تھا نہ تو امت میں شیعہ ،سنیت کی عصبیت تھی ،نہ دیوبندی بریلوی، اہل حدیث و غیر مقلد اور سلفی خلفی کے جھگڑے تھے ،لیکن شاہ ولی اللہ تک آتے آتے بہتر ۷۲طرح کا اسلام ہو گیا اور یہ حدیث بچے بچے کو یاد کرا دی گئی کہ امت میں تہتر فرقے تو ہو نے ہی ہونے ہیں جبکہ یہ کسی کو نہ بتایاکہ اللہ نے قرآن کریم میں یہ حکم دیاہے کہ مسلمان فرقوں میں نہ بٹیں اور سب کے سب صرف مسلمان رہ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا ( سورہ آل عمران ۱۰۳ )مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹنے کا کام صرف اور صرف ان ہی دو رکعت کے اماموں کا ہے ، اگر مخلص علمأ کرام آج بھی ملت کے منتشر شیرازے کو متحد کر ناچاہیں تو اس کا تریاق قرآن کی صورت میں آج بھی ان کے پاس موجود ہے ۔
ایک حدیث ہے جو اس طرح ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں بہتر فرقے تھے لیکن میری امت میں تہتر فرقے ہو جائینگے لیکن حق پر وہ ہوگا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پہلی بات تو یہ کہ یہ حدیث ہے ،قرآن نہیں ہے اور اصول یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن کے واضح حکم سے ٹکرا رہی ہے تو اولاَ علمأ کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی ایسی تاویل کی جائے جس سے دونوں منطبق ہو جائیں او ر اگر ایسی کوئی صورت نہ نکل پائے تو حدیث کو چھوڑ قرآن کے حکم کو لیا جائے،لیکن یہاں الٹا ہوا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ کسی نے گھر گھر جا کر مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو یہ بات یاد کرادی ہے کہ مسلمانوں میں تہتر فرقے ہونے ہی ہونے ہیں جبکہ قرآن کا واضح حکم لاتفرقوا(فرقومیں نہ بٹو) کسی کو نہ بتایا بلکہ مزید یہ بھی کہ کوئی خود قرآن پڑھ کرحقیقت کو نہ سمجھ لے اس کا انتظام کرتے ہوئے عوا م الناس کو قرآن کریم کے مفہوم ومطالب سے ہٹا کر صرف اور صرف تلاوت پر لگا دیا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کریم کے واضح احکامات کی تلاوت کرنے والا بھی ایک کلمہ گو کو کافر اور جہنمی اور خود کوجنتی قرار دے رہا ہے جبکہ جنت و جہنم پر اس کا کوئی بس نہیں وہ خالص اللہ کے قبضۂ قدرت کی چیز ہے، وہ جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے۔
قرآن میں ہے یا ایھا الّذینِ اٰمنوااَطِیعُو اللہَ و اَطِیعُوالّرَسُول وَ اُولی الاَمرِ مِنکُم (سورہ نسأ۵۹ ) اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اور اپنے میں سے صاحب رائے لوگوں کی ۔
قرآن کریم کے اس قانون کے تحت سب سے پہلے کوئی بھی حکم قرآن میں دیکھا جائیگا اگر وہاں کوئی واضح ہدایت موجود ہو تو بس ہے پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں اور رسول کے احکامات (احادیث) میں اگر اس کی تائید میں کچھ ہے تو سونے پہ سہاگا، لیکن اگر اس کے خلاف کوئی چیز نظر آئے تو اولا اس کی ایسی تاویل کی جائے گی کہ وہ قرآن سے منطبق ہو جائے ورنہ اسے چھوڑ دیا جائیگاکیوں کہ وہ قرآن کی مانند اللہ کا کلام نہیں ہے، اور اگر کوئی معاملہ ایسا در پیش ہو جائے کہ دونوں مقامات پر کوئی واضح حکم نہ ہو تو امت کے صاحب فہم علماء سے رجوع کیا جائے۔
لیکن اس معاملے میں یعنی امت میں گروہ بندی اور فرقہ بندی کے معاملے میں تو قرآن کریم میں واضح حکم موجود تھا بلکہ قرآن میں یہ وارننگ بھی موجود تھی کہ اگر مسلمان ہی مسلمان سے جھگڑے گا توتمہاری ہوا اُکھڑ جائیگی اور تم بزدل ہو جاؤگے (سورہ انفال آیت ۴۶) قرآن کریم کے اس واضح حکم کے بعد کسی اور شئے کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جاتی ہے لیکن اگر کوئی یہ طے کر بیٹھے کہ امت کے حصے بخرے کر کے اس کی طاقت کو توڑ کرہی دم لینا ہے اور پھر وہ قرآن کریم کوجو شریعت کی اصل الاصول ہے اس کی چندآیات کو چھوڑ کر لاکھوں کی تعداد میں موجود احادیث کے سمندر میں غوطہ جالگائے تو یہ تو ایسا سمندر ہے کہ اس میں سب کے مطلب کی باتیں مل جاتی ہیں کیوں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے نہ ہی اللہ نے قرآن کی مانند اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، کہا جاتا ہے کہ محدث اعظم امام بخاری کو آٹھ لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں، انہوں نے چھان پٹخ کر چند ہزار کو ہی اپنی کتاب میں شامل کیا پھر بھی بعد کے علماء کہتے ہیں کہ کم از کم چھ احادیث اس حتیاط کے بعد بھی ان کی کتاب میں نقلی اور موضوع درج ہو گئی ،لہٰذا لاکھ احتیاط کے بعد بھی احادیث کی معتبریت قرآن کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی۔
احادیث کی ضرورت سے انکار نہیں ہے بلکہ احادیث شریعت کا بنیادی رکن ہیں بہت سے امور ایسے ہیں جو محض احادیث پر ہی موقوف ہیں جیسے نماز کا طریقہ اور اس کی رکعتوں کی تعداد وغیرہ ،جن امور کی رہنمائی قرآن میں نہیں ہے یقیناًان میں احادیث سے معلومات حاصل کی جائے گی ،لیکن جس کا واضح حکم قرآن میں موجود ہواُسے چھوڑ دینا بلکہ اُسے چھپا دینا اور اس کے خلاف حدیث نکال لانا اور اسے اتنی تشہیر دینا کہ امت کے ایک ایک فرد کو کچھ اور یاد ہو یا نہ یاد ہو قرآن کا وہ غیر مطلوب حکم ضرور یاد ہو ،کیا اس میں آپ کو سازش کی بو نہیں آرہی ہے ؟ 
ایک مثال اور دیکھیں ۔قرآن میں ہے لَیسَ عَلَیکُم جُنَاح اَن تَأکُلُوا جَمِیعاََ اَو اَشتاتاََیعنی اس میں کوئی گناہ نہیں کہ اکھٹے کھاؤ یا علاحدہ (سورہ نور ۶۱)اسلام اس بات کی تو حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ شرب و طعام اجتماعی طور سے ایک دستر خوان پر بیٹھ کر ہو اور یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ کسی انسان کا کھاکر یا پی کر بچایا ہوا سامان ناپاک نہیں ہو جاتا بشرطیکہ اس نے کھانے پینے کے ساتھ ممنوعات (شراب وغیرہ )کااستعمال نہ کیا ہو مطلب یہ کہ اسلامی تعلیم کے مطابق اشیاءِ خورد و نوش میں نام نہاد جھوٹ نہیں ہوتا یقیناًیہ بہتر تعلیم ہے جو انسانی سماج میں آپسی اتحاد و اجتماعیت کو فروغ دینے والی ہے ،لیکن کئی افراد کا ایک ہی برتن میں غوطہ زن ہونا ،پانی کے ایک برتن سے کئی مختلف افراد کو سیراب کرنا اور اس پر یہ بھی اسرار کرنا کہ ایک شخص کے استعمال کے بعد اگر وہی برتن دوسرا شخص استعمال کر رہا ہے تو اسے دھویا نہ جائے ،یہ وحشی پنا اور بے تہذیبی کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسے شریعت کے نام پر کرنا یقیناًشریعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے جب قرآن یہ کہتا ہو کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم اکھٹے مل کر کھاؤ پیو اور یا الگ الگ پھر ان دو رکعت کے اماموں کا اس پر اصرار کہ ہمیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ایک غیر مہذب سماج بنا کر رکھدینا ہے شریعت ہے یا شریعت کے ساتھ دشمنی ہے ؟ ایسے معاملات میں اگر حدیث میں مطلب کا مواد نہ مل سکا تو حدیث گھڑنے کا کام بھی خوب ہوا ہے ،چنانچہ اس ضمن میں ایک فرضی ،موضوع اورمن گھڑت حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ سُور المُومِنِ شِفَاء یعنی مومن کے جھوٹے میں شفأ ہے یہ حدیث احادیث کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ہے ،پھر بھی اس پر فرض جیسا عمل ہے اس طرح کی ایک دو مثالیں نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے اگر آپ اُس شریعت کا ملان قرآن سے کرینگے جو یہ ’’دو رکعت کے امام ‘‘شریعت کے نام پر پیش کر رہے ہیں تو آپ کو لگے گا کہ اُن کی شریعت اور ہے قرآن کی شریعت اور ۔ 
گو الفاظ معانی میں، تفاؤت نہیں لیکن ملّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذان اور یہ دورکعت کے امام کہا ں سے آئے؟
سوال یہ ہے کہ یہ دورکعت کے امام آئے کہا ں سے اور کیسے پیدا ہوئے؟ اس کی ایک لمبی تاریخ ہے جس سے تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے اور اسلامی تاریخ کی کتابوں کے صفحات کے صفحات ان کی تفصیل سے پر ہیں لیکن ملت کو اپنے سکنجے میں جکڑے یہ’’ دو رکعت کے امام‘‘ اس تاریخ کو عوام تک پہنچنے نہیں دیتے ۔
ان دو رکعت کے اماموں کی پیدائش کیسے ہوئی اس کی مختصر تاریخ یہاں بیان کی جاتی ہے جو تفصیل میں جانا چاہے وہ بذات خود اسلامی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کر سکتا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہونگے کہ یورپ کے عیسائی ممالک ایک مدت تک مسلم دنیا سے بر سر پیکار رہے اس دور کو صلیبی جنگوں کادور کہا جاتا ہے عیسائی دنیا نے مسلمانوں سے درجنوں صلیبی جنگیں لڑیں لیکن ہر ایک میں منہ کی کھائی بالآخر فرانس کے بادشاہ لوئی نہم نے یورپ کے عیسائی راجاؤں کو جمع کیا اور ان کے درمیان قرآن کریم ہاتھ میں لے کر قرآن لہراتے ہوئے کہا کہ جب تک مسلمانوں میں یہ کتاب اور اس کی تعلیمات رہیں گی اس وقت تک تم مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکتے ،اگر مسلمانوں پر فتح چاہتے ہو تو انہیں اس کتاب کی تعلیمات سے دور کرنے کے طریقے سوچو ،اس کے بعد یورپ میں اسلامی تعلیم کے بڑے بڑے ادارے قائم کئے گئے جن میں یہودی اور عیسائی بچوں کوقرآن و حدیث و علوم اسلامی میں مہارت حاصل کرا کر انہیں مولویوں اماموں اور صوفیوں کی شکلوں میں مسلم دنیا میں پھیلا دیا گیا ،ان یہودی اور عیسائی مولویوں میں بڑے بڑے قابل مولوی بھی ہوئے ہیں جنہوں نے علوم اسلامی کے ایسے ایسے علمی کارنامے انجام دئے جن کی مثال عہد جدید کے مسلم علمأ میں شاذو نادر ہی نظر آئیگی ،ان کے ذریعے ا نجام دئے گئے کاموں کو آج کے دور کے مسلم علمأ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں مثال کے طور پر صحہ ستہ کی تمام حدیثوں کی لفظی فہرست مرتب کر نے کاکام المعجمُ المفھرسُ لِالفاظ الحدیث النبَوی کے نام سے سات جلدوں میں ہالینڈ کے ڈاکٹر اے ،جے وینسک A.J.Vensiak ۱ ۱۸۸ ؁۔ ۱۹۳۹ ؁، ایک یہودی عالم حدیث نے کیا ہے ،اس کتاب میں لفظوں کی پہچان سے کسی بھی لفظ پر مشتمل تمام حدیثوں کو ایک ساتھ جمع کر دیا گیا ہے جس سے کسی بھی موضوع کی تمام احادیث کو ایک ساتھ دیکھنا بہت آسان ہو گیا ہے ،اس کی یہ کتاب ہمارے ملک کے بڑے مدرسوں میں موجود ہے اور ہمارے محدثین اس سے استفادہ بھی فرماتے ہیں ،اسی طرح عربی زبان کی بہت معتبر ڈکشنری’’ المنجد ‘‘جو ہمارے مدرسوں میں مولوی حضرات کے مطالعے میں رہتی ہے وہ ایک عیسائی عالم کی مرتب کردہ ہے ۔ 
ڈاکٹر اے،جے وینسک کی مانند قرآن کریم پر یہ کام کرنے والا ایک عیسائی عالم ہے جو جرمن کا رہنے والا ہے اس کا نام گستاو فلاوگل (Flawgil) ۱۸۰۲ ؁ء ۔ ۱۸۷۰ ؁ء ہے اس نے قرآن کریم پرتو بڑا کام کیا ہی اس کے علاوہ عربی زبان کی بڑی اور اہم پچاس کتابیںآڈٹ کر کے شائع کی جن میں حاجی خلیفہ کی کشف الظنون سات جلدوں میں کتاب الفہرست ابن ندیم مع فہرست و مقدمہ ،جیسی کتابیں شامل ہیں،کتاب الظنون عربی علوم و فنون و تصنیفات کی ہزار سالہ تاریخ ہے جبکہ کتاب الفہرست مسلمانوں کی ابتدائی چار صدیوں کی علمی تاریخ کا خزانہ ہے ۔
فلاوگل کے متعلق دور حاضرکے ایک اسلامی اسکالر کے تأثرات کیا ہیں اسے ذیل کی سطور میں ملاحظہ فرمائیں ۔
فلاوگل کا اسلام اور مسلمانوں پرسب سے بڑا احسان جس سے مسلمان کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتے یہ ہے کہ اس نے قرآن مجید کی فہرست الفاظ نجوم 
القرآن کے نام سے مرتب کی جس کی مدد سے قرآن مجید کی ہر آیت حسبِ ضرورت نکالی جا سکتی ہے ،اس کے علاوہ اس نے تین ضخیم جلدوں میں تاریخِ
عرب لکھی ، ثعالبی کی’’ مونس الو حید ‘‘چھاپ کر شائع کی ۔
اسلام اور مستشرقین ،جلد پنجم ص۵۳
مرتب۔ سید صباح الدین 
مطبوعہ ۔دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڈھ
دین ِ اسلام کے وہ عیسائی اور یہودی علمأجن کی کتابیں مسلم دنیا میں بہت پسند کی جاتی ہیں ان میں سے کچھ کے نام یہاں درج کئے جاتے ہیں ۔
(۱) ہینری لامنس H.Lammans, ۱۸۷۲ ؁ ۔ ۱۹۳۷ ؁ ء فرانسیسی ہے ،اس کی دو کتابوں کو اسلامی دنیا میں بہت پسند کیا جا تاہے ایک’’ اسلامی انسائیکلو پیڈیا ‘‘اور دوسری’’ اسلام اور طائف‘‘ اسلامی علوم پر اس کی اور بھی بہت سی کتابیں ہیں ۔
(۲)بریل Barel, یہ شخص ۱۸۱۴ ؁ء میں ہالینڈ میں پیدا ہوا،کٹر عیسائی تھا لیکن اسلامی علوم کا زبردست ماہر ہوا ہے ،اس نے ہالینڈ کے شہر ’’لائیڈن‘‘ میں اپنے نام پر ہی ایک اسلامی چھاپہ خانہ قائم کیاتھا جس میں عربی میں علوم اسلامی کی پانچ سو سے زیاد ہ کتابیں چھپیں ہیں ،اسی نے حدیث کی مشہور کتاب ’’بخاری شریف‘‘ کا بہت عمدہ ایڈیشن آڈٹ کر کے ۱۹۰۸ ؁ ء میں لائیڈن کے اسی چھاپہ خانے سے شائع کیا تھا ۔
(۳)لاؤسٹ ۔ ۱۹۰۴ ؁ء عیسائی ہے اُسے مشہور اسلامی مفکر ’’ابن تیمیہ‘‘کے افکار اور ان کی تصانیف سے بڑی دلچسپی ہے ’’چارلس پیلا سوروبون‘‘میں عربی کا استاذ رہا ہے ،اس نے پیرس سے عربی زبان میں علوم اسلامی و شریعت کی سیکڑوں کتابیں شائع کی اور بہت سی عربی کتابوں کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ان کے علاوہ ،ڈوزی ۔۱۸۲۰ ؁ء ۔ ۱۸۸۳ ؁ء چار جلدوں میں تَکمِلَۃُ مَعَاجِعَاجِمِ العَرَبِی اس کی تصنیف ہے ، ایک دوسرا شخص ہے’’ سخاؤ ‘‘جس نے ’’طبقات ابن سعد‘‘ کی تدوین کی،کچھ اور نام یہ ہیں۔ ڈخویہ،۱۸۳۶ ؁ء ۔ ۱۹۰۹ ؁ء جس نے فَتُوحُ البُلدان (البلازری) اور امام طبری کی تَاریخ الرُسُل وَ المُلوک شائع کی ،مو نیسیور کولی اَلبَحثُ عَنِ الدِینِ الحَق اس کی مشہور تصنیف ہے ، ڈی جو جے ۱۸۳۶ ؁ ء ۔ ۱۹۰۹ ؁ء ہالینڈ کے رہنے والے ہیں ان کی بہت سی تصنیفات ہیں اس کے علاوہ انہوں نے وَفیَاتُ الَاَعیَان از اِبن خَلقان پر کام کیااور ایک دیگر عالم ڈی جونگ کے ساتھ مل کر’’ سیرت ابن حشام ‘‘ کے متن اور ترجمے کی اشاعت کی ،وسٹنفیلڈ Wusten feld ۱۸۰۸ ؁ء ۔ ۹ ۱۸۹ ؁ء جرمن عالم ہیں انہوں نے ’’سیرت ابن حشام مع تعلیقات وحواشی‘‘ کی تین جلدوں میں تدوین کی، اس کے علاوہ’’ تاریخ مکۃ المکرمہ ‘‘،’’اراضی مدینہ منورہ‘‘ اور’’ اشراف مکہ‘‘ اس کی یادگار تصانیف ہیں ،ڈاکٹر گلوور تَقدمُ التَبشیرِ العالی کا مصنف ہے، ڈاکٹر سفاری جس نے ۱۷۵۲ ؁ ء میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا ،لیو پولڈویس ( بعد کو اسلام قبول کر کے محمد اسعد ہو گئے تھے)ُپروفیسراسین پلاسیوسAsinpalacios انہوں نے امام غزالی پر ایک جامع کتاب تصنیف کی ،سیو کیو،لارنس براؤن ،ڈاکٹر بیکر ،مانٹگمری واٹ کانٹ ویل اسمتھ ،ایتن ڈینیہ ( انہوں نے بھی بعد کو اسلام قبول کر لیا تھا) ان کی مشہور تصنیف اَلشَرقُ کَمَا یَرٰۂ الغَرَبُ ہے ،ڈاکٹر اسنوک میر گوج لامانس بروکلمان ،اسرائیل ولفن سون ،مارگولیتھ(اس نے مسند امام حنبل کو آڈٹ کر کے شائع کیا اور یاقوت ہموی کی کتاب معجمُ الادبأ کو سات جلدوں میں شائع کیا)فان کریمر آسٹریلیا تقریبا بیس عربی کتابوں (مخطوطات) کو تلاش کر کے شائع کیا جس میں ماوردی کی الاحکامُ السُلطانیہ اور نشوان کی قصیدۃ الحمیرۃ جیسی کتابیں شامل ہیں ،نولدیکی ڈاکٹراسپرنگر،ڈوزی ،جرجی زیدان ،مارسین ،گولیم ،گولڈریہر ،گارڈ فرو ،والٹر اسکاٹ ،الیکژنڈر ڈیماس فلہاوزن ،سر ٹامس آرنلڈ ،یہ وہ چندنام ہیں جو مذہب اسلام کے مشہور زمانہ عیسائی اور یہودی علمائے دین تعلیم اسلامی ہیں جو محض نمونے کے طور پر پیش کئے گئے ہیں ورنہ ان کی تعداد دائرۂ شمار سے پرے ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں ۔
’’اسلام ا ور مستشرقین‘‘ جلد دوئم ،مرتب سید صباح الدین مطبوعہ ،دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڈھ ،
یہ ایک جھلک ہے یہ بتانے کے لئے کہ جس طرح اسلامی دنیا میں بڑے بڑے ماہر علمائے دین پیدا ہوئے ،اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی دین اسلام کے بڑے بڑے ماہرین پیدا کئے گئے جس طرح مسلم علمائے دین کا مقصد اسلام کی تشہیر و تبلیغ تھا اسی طرح ،یہودی اور عیسائی علمائے دین کی کوشش اسلام کا راستہ روکنا تھا ،انہوں نے اس کا م میں کس قدر محنتیں کیں اور کس کس طرح کی زندگیاں کھپائیں یہ دیکھ کر ایک عام آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے ،بقول ایک تحقیق کار کہ۔
شاید ہی کوئی اسلامی مصدر بچا ہو جو مستشرقین کی تحریف سے ماوریٰ ہوابن سعد کی طبقاتُ الکبریٰ کو لیجئے مستشرقین کی تحقیقات کے ساتھ جو نسخہ شائع
ہوا ہے اس کی غلطیوں (تحریفات) کا احاطہ مشکل ہے ۔
’’اسلام ا ور مستشرقین‘‘ جلد سوم ص۸۲ (مطبوعہ ،دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڈھ )مزیدتفصیل کے لئے مطالعہ کریں۔
۱۔ اسلام اور مستشرقین ،سات جلدیں ۔
۲۔ عالم اسلام پر مغرب کا تسلط ،از محمد وثیق ندوی ،مطبوعہ دارالرشید لکھنؤ۔ یہ معدودے چند نام ہیں ورنہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے ،جنہوں نے یوروپ کے ممالک میں بڑے بڑے اسلامی مدرسے قائم کئے، کتابیں تصنیف کیں ، اسلامی کتابوں کے چھاپے خانے قائم کئے اس طرح کا ایک مدرسہ ،یوپی کے ا نگریزی دو ر کے گورنر ’’ نواب سعید احمد‘‘ چھتاری نے لندن میں دیکھا تھا جس کا انہوں نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے ،اس طرح کے مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے عیسائی اور یہودی علمأ کو مسلم دنیا میں ’’ دو رکعت کا امام‘‘ بنا کر بھیجا جا تاتھا،اسی طرح کا ایک شخص ’’ہمفرے‘‘ تھا ،جس کو ترکی کی مہم سونپی گئی تھی،بعد کو اس نے اپنے تجربات پر مشتمل کتاب لکھی جو ’’ ہمفرے کے خیالات‘‘ کے نام سے اردومیں بھی دستیاب ہے ۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوکِلِپ دستیاب ہے جس میں ایک پاکستانی سفارتکار بتا رہا ہے کہ دوبئی میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ اٹھارہ سال مسجد میں امامت کر کے اب ریٹائر منٹ لے کر آئے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ دیکھنے میں وہ شخص انتہائی متقی اور پرہیز گار صاحب وضع قطع نظر آرہا تھا ،عربی ،اردو ،پنجابی اور پشتو جیسی زبانوں کا ماہر تھا ،لیکن نمازپڑھنے نہیں جاتا تھا وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ،پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے تو اٹھارہ سال امامت کرائی ہے ؟ تو کہنے لگا کہ وہ تو میری جاب تھی ،اس پر سفارتکار خود کہتے ہیں کہ اس نے دوران امامت کیسے اسلام کا پرچار کیا ہوگا یہ ہم خود سمجھ سکتے ہیں ،جو آدمی مسلمانوں کو اصل دین سے ہٹانے اور قرآنی تعلیم سے دور کر نے آیا ہے اس نے جو اسلام بیچا ہوگا ،اور اس کے جو خریدار بنے ہونگے جو ہمارے ہی بیچ کے افراد ہونگے ان سے نپٹنا بہت مشکل کام ہے ۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ یورپ کے عیسائی ممالک نے مسلمانوں کے مقابلے ہزیمت اٹھانے کے بعد ایک جنگی پلاننگ کے تحت انہیں اصل مذہب سے دور کر نے ،ان کے اندر سے اسلامی روح اور قرآن کریم کی تعلیم کو نکالنے کے لئے جنگی پیمانے پر ہی یہ مہم شروع کی تھی ،وہ اس میں کتنے کامیاب رہے اگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آج کے دور کے مسلمانوں کے عمل کا قرآن کریم کی تعلیمات سے موازنہ کر کے دیکھ لیں کہ آج کے دور میں عام مسلمان کو قرآن سے کس طرح کاٹ دیاگیا ہے چنانچہ آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں قرآن کریم صرف تلاوت کی چیز ہے ،سمجھنے کی چیز نہیں ،اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے ،مردوں کو ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے ،اسے گھول کر پیا جا سکتا ہے ،تعویذ میں لکھ کر گلے میں لٹکایا جا سکتا ہے ،اس کا طغرا بناکر مکان کی دیوارں پر آویزا ں کیا جاسکتا ہے ،یعنی سب کچھ ہو سکتا ہے بس اسے سمجھا نہیں جا سکتا، نہ ہی وہ (حاشاکلا )عام آدمی کے سمجھنے کی چیز ہے ،لہذا اگر کچھ افراد کسی مسجد میں اسے سمجھ کر پڑھنے کا سلسلہ شروع کر نا چاہیں تو انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ،جب اس کی تعلیم عام مسلمان تک نہیں پہنچے گی تو عمل کا مطلب ہی کیا ہے ،تو چلئے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ مسلم عوام میں جو ویسے تو قرآن کے سچے عاشق ہیں ،اس پر کوئی انگلی اٹھادے تو اس کی انگلی کاٹنے پر تیار ہو جائیں ،کوئی اس کے خلاف بول دے تو اس کی زبان کھینچ لیں ،لیکن قرآن کی تعلیم ان کی زندگی میں کتنی ہے ؟
قرآن کہتا ہے کہ یہ کتاب عوام الناس کی ہدایت کے لئے ہے (سورہ بقر ۱۸۵)جبکہ لوگ کہتے ہیں کہ اسے عام آدمی سمجھنے کی کوشش نہ کرے ورنہ گمرہی کا خطرہ ہے ،قرآن کہتا ہے کہ مسلمان سب کے سب مل کر ایک جان ہو کر رہیں اور آپس میں فرقے نہ بنائیں لیکن آج کا مسلمان کہتا ہے کہ فرقے تو ہو کر رہیں گے اللہ کے رسول نے کہا ہے کہ قرب قیامت میں ایسا ہوگا تو کیا ہمیں قیامت نہیں لانی ؟ اگرقیامت لانی ہے اور جلد سے جلدجنت میں جانا ہے تو ایک دوسرے کو کافر تو کہنا ہی ہے ،لاکھ رسول اللہ ﷺ نے یہ کہا ہو کہ کافر کو بھی کافر نہ کہو ،کیوں کہ انہوں نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ مسلمان کو بھی کافر نہ کہو ۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے دو چیزوں کو اسلام کی خاص بنیاد بنایا ہے ،ایک نماز اور دوسرا زکوٰۃ چنانچہ ساٹھ ستر مقامات پر نماز کے حکم کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا حکم بھی (اقیموا الصلوٰۃ و آتو الزکوٰۃ ) کے لفظوں سے واضح احکام کی صورت میں ہے، اس کے علاوہ درجنوں مقامات پر غریبوں ،مسکینو ں ضرورتمندوں کے لئے جو بھی اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کر نے کا حکم ہے ،یہ دو بنیادیں اس لئے ہیں کہ نماز سے انسان میں اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس جا گے اور رات دن کے پانچ وقتوں میں اللہ کے سامنے حضوری سے یہ احساس پیدا ہو کہ اللہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہے اور اس کا ہر عمل اس کی نگرانی میں ہے ،جب کسی انسان میں یہ احساس جاگ جا ئیگا تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت محتاط رہے گا اور ہر عمل انصاف اور ذمہ داری سے ادا کرے گا ،قرآن پڑھے اور سمجھے گا تو جگہ جگہ اسے اس بات کا احساس کرایا جا تا رہے گا کہ تم جو بھی عمل کرتے ہو اسے اللہ کے کارندے لکھ رہے ہیں ( سورہ ق آیت ۶ ) دوسرے نمبر پر زکوٰۃ وصدقات کو دین کی اساس اس لئے بنایا گیا تھا کہ سماج میں دبے کچلے،غریبوں،مسکینوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور کسی حد تک سماج میں اقتصادی مساوات قائم رہے ، دنیا کے سماجیات کے بہت سے مفکرین نے یہ مانا ہے کہ اس دنیا میں جس قدر بھی ،جھگڑے و فساد ،چوری ،ڈانکہ اور قتل وغیرہ ہیں ان سب کا بنیادی سبب انسانی سماج میں امیری اور غریبی کا فرق ہے ،آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں جکڑنے والا ’’مارکسزم‘‘ جس نے بہت سے مسلم ممالک کو بھی دہریت کی دہلیز تک پہنچایا ہے اس کی بنیاد یہی نظریہ تھا ،اسی لئے قرآن میں زکوٰۃ وصدقات کے آٹھ مصارف بتائے گئے تھے جن کی وضاحت قرآن کریم کی سورہ توبہ آیت نمبر۶۰ میں کی گئی ہے ،مارکسزم نے تو اٹھارویں صدی میں اس کو سمجھا لیکن اسلام نے چودہ صدیوں قبل اس نقطہ کو سمجھ کر اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہدیا تھا کہ امیروں کے مال میں غریبوں کا بھی حصہ ہے تاکہ دولت چند ہاتھوں میں ہی سمٹ کر نہ رہ جائے ( سورہ حشر آیت۷ )لیکن دو رکعت کے اماموں کے پاس اس کا بھی توڑ موجود تھا ،قرآن کو تو انہوں نے لوگوں کے ہاتھوں سے چھین ہی لیا تھا اور اب عوام محض ان دو رکعت کے اماموں کے ہی سہارے رہ گئے تھے لہذا انہوں نے اللہ کے بتائے ہو ئے آٹھ مصرفوں کی جگہ صرف ایک مصرف ہی سامنے آنے دیا اور وہ تھا محض ان دو رکعت کے اماموں کی جیب ،لہٰذا آج کے دور میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے اسلام کی جو دو متوازی بنیادوں(نماز اور زکوٰۃ ) کو ساٹھ سے زیادہ مقامات پر دونوں کا ایک ساتھ حکم اقیمو ا لصلوٰۃ و آتُو الزکوٰۃ جیسے کلمات سے دیا تھا ،اس میں بڑی ہو شیاری سے تبدیلی کی گئی یعنی زکوٰۃ و صدقات کو سائڈ کرتے ہو ئے زکوٰۃ کی جگہ روزے کو لایا گیا ،چنانچہ آج ہر ایک مذہبی قسم کے مسلمان کے دماغ میں ،دین ومذہب کے بنیادی عناصر کے بطور نماز روزہ ،نمازروزہ تو رہتا ہے ،نماز اور زکوٰۃ نہیں رہتا ،روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے اس کی اہمیت کسی طرح زکوٰۃ سے کم نہیں ہے لیکن اس کا حکم واضح لفظوں میں صرف ایک مقام پر ہے ،ایسی ہی بات حج کی بھی ہے دوسری بات یہ کہ حج پوری زندگی میں صرف ایک بار وہ بھی مال کی مخصوص کنڈیشن میں فرض ہے جبکہ عمرہ تو ایک بار بھی فرض نہیں اور روزے سال میں صرف ایک مرتبہ آتے ہیں ،ایسے ہی ان کاحکم بھی پوری وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں ایک ایک مقام پر ہی ہے،لیکن زکوٰۃ ،صدقات ،غریبوں کی مدد اورکمزروں یتیموں، بھوکو ں کو کھانا کھلانا،تنگ حال مفلس ،مسکین کی مالی مدد کرنا ،جیسے احکامات سو سے بھی زیادہ مقامات پر ہیں لیکن صورتحال یہ ہے مسلمانوں میں امور حج اور عمرہ تو منظم ہے اور مالدار مسلمان عمر میں کئی کئی حج اور عمرہ کرتے ہیں لیکن زکوٰۃ کو مستحقین تک پہنچانے کیلئے کوئی منظم تحریک نہیں ہے۔
جس سماج میں ایک کثیر تعداد زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو اور اس میں کے اہل ثروت کئی کئی نفلی حج اور نفلی عمرے کریں توکیا اُسے قرآن کا مطلوب سماج کہا جا سکتا ہے ؟
خدا سے دیکھ، کتنا ڈر، رہا ہوں 
تجوری جیب دونوں بھر رہا ہوں
پڑوسی بھوکا ہے، تیسرا دن ہے
میں چوتھی بار، عمرہ ،کر رہا ہوں
قرآن کریم کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنگ حال، مفلسوں،مسکینوں ،غریبوں یتیموں کی مالی مدد، دیگر مسلمانوں پر اسی طرح فرض ہے جس طرح ان پر نماز فرض ہے، یہ تصور قائم کر لینا کہ مال کی ایک مخصوص مقدار جسے نصاب کہتے ہیں وہی ہمارے پا س ہو گا تو ہم تبھی پیسہ جیب سے نکالیں گے سراسر غلط ہے اگر کوئی صاحب نصاب ہو تو اس پر مال کاچالیسواں حصہ نکالکرغٖریبوں تک پہنچانے کی فرضی نوعیت تو ایسی ہے کہ اگر اس میں کوئی حیلہ حوالہ کرے تو مقتدر اعظم کو حق ہے کہ اس سے بزور طاقت وصول کر لے جس طرح حکومتیں ٹیکس وصول کرتی ہیں ،لیکن وہ مسلمان جو صاحب نصاب نہیں ہیں مگر صاحب مال اور صاحب حیثیت ہے ان سے کیا تقاضا ہے اسے مندرجہ ذیل آیات میں دیکھیں ۔
قرآن کریم کی پہلی ہی سورہ کی پہلی چند آیتیں پڑھئے ۔
الم ذٰلِکَ الکِتَبُ لا رَیبَہ فِیہاالخ ،یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
اس میں آخری ٹکڑے کی جانب اشارہ مقصود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ بھی ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں گویا یہاں پر جو حکم ہے وہ اس مخصوص زکوٰۃ کانہیں جو صاحب نصاب پر فرض ہے کیوں کہ اس کے لئے قرآن کریم نے زکوٰۃ کا مخصوص لفظ استعمال کیا ہے ۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے ۔
وہ جو نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں وہی در حقیقت مومن ہیں اللہ کے نزدیک انہیں کے درجات بلند ہیں (سورہ انفال آیت نمبر ۳)سورہ حشر کی آیت نمبر ۷ میں اس عنوان کو مزید واضح کرتے ہوئے ارشاد ہو اہے کہ جو کچھ بھی اللہ نے عطا کیا ہے یعنی انسان نے اپنی محنت سے کمایا ہے اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو نادار ہیں یتیم ہیں ،مسکین ہیں یعنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔
اس آیت میں مزید ایک اہم بات کہی گئی ہے وہ یہ کہ ایسا اللہ نے اس لئے ضروری قرار دیا ہے تاکہ دولت صرف مالداروں کے ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرتی رہے کَی لَا یَکُونَ دَولَۃََبَینَ الاَغنِیاءَ مِنکُم یہ کس قدر اہم بات ہے، دنیا میں وائرس کی طرح پھیلنے والے کمیونزم اور مارکسزم کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے’’کارل مارکس‘‘ نے یہی تو کہا تھا کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور یہ دولت والے غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں جو دولت جمع کر کے اس پر سانپ کی مانند کنڈلی مار کر بیٹھ گئے ہیں محنت تو غریب کرتا ہے اور اس غریب کی محنت سے کمائی گئی دولت کا کل استحقاق امیروں کے ہاتھوں میں چلاجاتا ہے ،اسی نقطے پر مارکسسٹوں نے غریبوں ،مزدوروں اور محروموں کو جمع کر کے دنیا میں ایسا انقلاب پرپا کیا کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی ،کئی مسلم ملک اور بہت سے مسلم دانشوران بھی اس کی لپیٹ میں آئے ،اگر مسلمانوں میں قرآن کی تعلیم عام ہوتی اور قرآن نے جس خطرے کو بھانپ کر پہلے ہی اس کا سد باب کر دیا تھا مسلمانوں کا اس پر عمل ہوتا تو کم ازکم امت مسلمہ، دنیا کے اس عظیم فتنے سے محفوظ رہتی جس نے نہ جانے ملت کے کتنے ہی افراد کو جہنم کا ایندھن بنادیاہے ۔
قرآن میں غریبوں ،کمزوروں ،مسکینوں، محتاجوں ،ضرورتمندوں کی مدد ،یتیموں ،مسکینوں کو کھانا کھلانا خستہ حال اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم لوگوں کے تعاون میں صدقات و زکوٰۃ کی ادائیگی کے احکامات نماز کے احکام سے کم نہیں ہیں پھر بھی نمازیوں کی مقدار کے مقابلے از خود غریبوں کی مدد کے لئے آگے آنے والوں کی مقدار یک فیصد بھی نہیں، اور یہ کام مسلمانوں میں اس قدر اجنبی ہے کہ کوئی بھولا بسرا تھوڑا بہت کرتا بھی ہے تو اس میں لوگوں کو یہود ونصاری کی بو آنے لگتی ہے اور وہ یہ پوچھنے سے بھی نہیں چوکتے کہ پیسہ امریکہ سے ملا تھا یا اسرائیل سے۔ (ہم نے اس مضمون کے شروع میں ایک امام صاحب کا ذکر کیا تھا وہ آپ کو یاد ہوگا )۔کیوں کہ ظاہر ہے انہیں یہ تشویش ہو نا لازمی ہے کہ ہم نے جس قرآنی رجحان کا قلع قمع کر دیا تھا وہ پھر سے کیوں ابھر نے لگا ہے اور اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو ان افراد کا متحرک ہوجانا ضروری ہے جنہوں نے بڑی محنت کرکے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم سے دور کیا تھا لہٰذا وہ یہ بات ٹھان لیتے ہیں کہ وہ مسجد مسجد جا کر مسلمانوں کو ایسا کرنے والوں سے ہوشیار رہنے کو کہیں گے۔ 
ایک ایسے معاشرے کا تصور کیجئے کہ جس میں نمازی اسلئے نماز پڑھتا ہے کہ رات اور دن میں پانچ وقت کی اس ریہر سل سے اس کے دماغ میں خود کے خالق و مالک کی نگرانی میں ہو نے کا یہ احساس قائم ہو جائے کہ اس دنیا وجہاں کا بنانے والا ہر وقت ہر گھڑی چاہے دن کا اجالا ہو یا رات کا اندھیرا بندے کو دیکھ رہا ہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر رہا ہے اورپھر ایک دن ایک ایک بات کا گہرائی سے حساب بھی دینا ہوگا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز ایسے پڑھو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا تصور قائم نہ کر سکو تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے ، قرآن کریم کی سورہ ’’ق‘‘ آیت نمبر ۸ میں کہا گیا ہے کہ انسان جو کچھ بولتا ہے اسے ( اللہ کی جانب سے مقرر کردہ فرشتے ) فورا لکھ لیتے ہیں ،سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہے کہ جب (روز قیامت ) انسان کے سامنے اس کا یہ دفتر کھولا جا ئیگا تو مجرمین گھبرا جائینگے اور کہینگے کہ ہائے خرابی یہ کیسا ریکارڈ ہے جس نے نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑی نہ بڑی ۔
جب انسان اللہ کی کتاب میں انتہائی عقیدت اور یقین کے ساتھ یہ سب پڑھتا ہے تو ایک صحیح الدماغ انسان کا برائیوں سے رُک جانا ضروری محسوس ہو تا ہے،برائیوں سے بچ کر زندگی گذارنے والے یہ لوگ جب اپنے میں کے کمزوروں غریبوں اور مفلسوں کی مالی مدد کر کے انہیں اوپر اٹھانے کی برابر کوشش بھی کر تے رہیں تو یقیناًایک بہتر سماج کی تشکیل ہو گی مگر یہ تبھی ممکن ہے جب ان میں کا ہر ایک قرآن کی تعلیمات کو تلاوت کرنے کے ساتھ سمجھتا بھی ہو لیکن اگر قرآن کو سمجھنے سے ہی لوگوں کو روک دیا جا ئے اور نمازاور اس کے سجدوں کے بارے میں یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ اللہ کو یہ سجدے اسی طرح اس کو راضی کر نے کے لئے ہیں جیسے ایک بت پرست اپنے معبود کو اپنی پوجا سے خوش کرتا ہے،اور اس کی کتاب (قرآن ) کے پڑھنے سے بھی وہ ایسے ہی خوش ہو تا ہے اور ایک ایک حرف کے پڑھنے پر نیکیوں کے انبار لگا دیتا ہے تو اس فکر سے کوئی نام نہاد مسلمان اپنی دانست میں چاہے جنت میں اپنے لئے محلات تعمیر کر رہا ہووہ اس دنیا جہان میں قرآن کامطلوب انسان نہیں بن سکتا ۔
جب کسی سماج میں عوامی سطح پر قرآن کی تعلیم کے بر خلاف اس بات کی تشہیر کر دی گئی ہو کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف آخرت بنا نا ہے اور جو اس دنیا کی بات کرے وہ محض دنیا دار ہے بہتر ہے کہ لوگ اس سے بچ کر رہیں تو اس معاشرے میں ایسے ہی افراد کی تشکیل ہوگی جو اس دنیا پر بوجھ ہونگے جنہیں دنیا والے حقارت کی نظرسے دیکھیں گے جو بدنام سماج کا حصہ ہونگے ۔
ہم نے اس نظریے کو قرآن کی تعلیم کے برخلاف اس لئے کہا ہے کیوں کہ قران کی تعلیم ہے ہی یہ کہ ایک اچھا مسلمان وہ ہے جس کی دنیا بھی بہتر ہو اور اس کی آخرت بھی بہتر ہو ،یہی مطلب ہے اس دعا کا جو قرآن کی سورہ بقرآیت نمبر۲۰۱میں ہے( رَبّنا اٰتِنا فی الدُنا حَسَنَۃََوَّفی الاٰخِرَۃ حَسَنۃ) یا اللہ ہمیں دنیا بھی اچھی دے اور آخرت بھی اچھی دے ۔ 
بہر حال دین کی جڑ قرآن میں ہے لیکن جب عام مسلمان کو قرآن سے ہی کاٹ کر رکھ دیا جائے تو ویسا ہی معاشرہ وجود میں آئیگا جس کے ہاتھ میں مذہب کے نام پر محض چند مذہبی رسوم ہوں گی۔
قرآن کہتا ہے کہ اِنَّ الصَلوٰۃتَنھیٰ عَنِ الفَحشَاء والمُنکَر یعنی نمازگناہ کے کاموں سے (منکرات اور فاحشات) سے روکتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن کی مذکورہ قسم کی تنبیہات والی آیات بھی نمازی کے سامنے اسی طرح تکرار کے ساتھ آتی رہیں جس تکرار کے ساتھ نمازی نمازپڑھتا ہے اور اسی تکرار کے ساتھ اس کے سامنے قرآن کایہ مطالبہ دہرایا جا تا رہے کہ وہ جو کچھ بھی کماتا ہے اس میں غریبوں محتاجوں،ضرورتمندوں کا حصہ بھی شامل ہے جو مستحقین تک پہنچانا اسی کی ذمہ داری ہے،جہری نمازوں میں اسی لئے تو قرآن بآواز بلند پڑھا جاتا ہے کہ سن کر اس پر عمل ہواگر مقتدی نہیں سمجھ رہے ہیں تو امام کی ذمہ داری ہے کہ انہیں نماز میں پڑھا گیا قرآن سمجھا ئے، ظاہر ہے کہ جب ایک جانب انسان پورے اخلاص کے ساتھ یہ سمجھ کر نماز میں کھڑا ہوگا کہ میرا خالق و مالک مجھے دیکھ رہا ہے ساتھ ہی ساتھ نماز میں امام کی زبانی وہ قرآنی آیات جن میں معروف کا حکم ہے اور منکر سے روکا گیا ہے انہیں یہ سمجھ کر سنے گا کہ ان آیات میں میرا خالق و مالک مجھ سے مخاطب ہے تو وہ ایک جانب فاحشات سے ،منکرات سے ،برائیوں سے خود کو روکے گا اور دوسرے وہ سماج کے دبے کچلے ،غریبوں ،مسکینوں اور محتاجوں کی دامے درمے مدد کرے گا تو ایک ایسا سماج ابھر کر اوپر آئے گا جس میں کمزور بھی کسی حد تک خوشحال ہونگے اور غربأ کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی اور عمومی زندگی میں لوگ گناہوں سے دور ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کافی حد تک معاشرتی جرائم،آپسی جھگڑے، چوری اور لو ٹ مار کے حادثوں میں کمی آئے گی اور کتنے ہی جھگڑوں ٹانٹوں پر قدغن لگے گا ، اورایک ایسے سماج کی تشکیل ہوگی جس کو ہم دور اولین کے مسلمانوں کی تاریخ میں پڑھتے ہیں۔
اپنے مصلیین میں نماز کی یہ روح پیدا کرنا مسجد کے امام کی ذمہ داری ہے اس لئے امام کم از کم اتنی اہلیت کا ہونا ضروری ہے جو قرآن کو سمجھ کر اس کا مفہوم نمازیوں پر واضح کر سکے ،لیکن جس مسلم سماج کے امام خود بھی یہ نہ سمجھتے ہوں کہ انہوں نے نماز میں کیا پڑھا ہے ان کا حال جو ہوگا اسے ایک واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے جو ذیل میں درج ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ راقم الحروف نے ایک گاؤں کی مسجد میں نماز فجر ادا کی ،نماز میں امام صاحب نے قنوت نازلہ پڑھی ،قنوت نازلہ میں ابتدائی چند کلمات دعائیہ ہیں جس میں ایک یہ ہے اَللٰھُمَّ اَلّف بَینَ قُلُوبَھم اے اللہ مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دے ،نماز سے فراغت کے بعد امام صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں دوران گفتگو ایک سوال کیا جس میں مسلمانوں کے ایک خاص مسلکی گروپ کے بارے میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ مسلمان ہیں ؟ان کی نظر میں وہ خاص مسلکی گروپ مسلمان نہیں تھا ،راقم نے ان سے بس یہ کہا کہ نماز میںآپ نے قنوت نازلہ میں مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کی جو دعأ کی ہے وہ مسجد کی چھت سے اوپر نہیں گئی ۔
آج پورے مسلم سماج میں یہی ہو رہاہے ،قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے جو مسلمان کے لئے زندگی کا آئین ہے ، اس کو زندگی سے نکال دیا جائے تو پوری عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے اس کو مسلمانوں کی زندگی سے نکالنے کے لئے یہ ایک کارگر شیطانی حربہ ہے کہ اس کو سمجھنے کی کوشش نہ ہو جسے آج کے دور میں’’ دورکعت کے امام‘‘ پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں ۔
* جہاں تک منکرات ،فاحشات ( برائیوں) سے بچنے کی بات ہے تو یہ کسے معلوم نہیں کہ برائی کیا ہے عمومی طور پر اس بارے میں کہ برا کیا ہے اور اچھا کیا ہے جس قدر ایک مسلمان جانتا ہے اسی قدر ایک کافر بھی جانتا ہے ،مثلا یہ بات کہ ناپ تول میں دیتے ہوئے کمی کر دینا او ر جب لینے کی بات ہو تو پورا پورا لیناگناہ ہے اور ایسا کر نا بری بات ہے اسے ہر عام انسان سمجھتا ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہو لیکن ذرا تصور کیجئے ایک ایسے انسان کا جسے یہ یقین ہے کہ اسے ایک دن اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہی دینا ہے جو ہر تین چار گھنٹے کے بعد اپنے پیدا کرنے والے کے آگے سجدہ ریز ہوکر اس بات کی عملی مشق کرتا ہے کہ میرا خالق و مالک ہر وقت مجھے دیکھ رہا ہے کیوں کہ وہ قرآن جیسی باعظمت کتاب میں بار بار یہ بھی پڑھتا ہے کہ انسان جو کچھ بولتا ہے اسے( اللہ کی جانب سے مقرر کردہ فرشتوں کے ذریعہ) فورا لکھ لیا جاتا ہے (سورہ ’’ق‘‘ آیت نمبر ۸)اور جب (روز قیامت ) انسان کے سامنے اس کا یہ دفتر کھولا جا ئیگا تو مجرمین گھبرا جائینگے اور کہینگے کہ ہائے خرابی یہ کیسا ریکارڈ ہے جس نے نہ کوئی چھوٹی بات کو چھوڑا نہ بڑی بات کو (سورہ کہف آیت ۴۹) اور پھران آیات پر یقین رکھنے والا اور انہیں بار بار دہرانے والا جب سورہ مطففین کی مندرجہ ذیل کی آیات پڑھ کر گھر سے نکلے۔
وَیلُ لِلطففین........... الخ 
ہلاکت ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ،جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا پورا لیں اور جب دینے کے لئے ناپ تول کریں تو گھٹا دیں ،کیا یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ایک دن اُٹھا لئے جائینگے ایک بڑے دن (روزقیامت ) کے لئے ،جس دن یہ خدا کے سامنے کھڑے ہوئے
ہونگے ،خبردار گناہ گاروں کا اعمال نامہ سجین میں ہوگا اور تمہیں پتہ ہے کہ سجین کیا ہے ؟وہ ایک ریکارڈ بُک ہے ،ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں کی ،جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں ،اور اس کو وہی 
جھٹلاتا ہے جو حد سے گذر جانے والا ہو ،گناہ گار ہو جب اس کو ہماری آیات سنائی جائیں
تو کہدے کہ یہ تو گذرے دور کی باتیں ہیں خبر دار ؟ بلکہ ان کے دلوں پر ان کے(برے)
اعمال (جیسے کم تولنا وغیرہ کا زنگ چڑھ گیا ہے ،خبردار انہیں اس دن خدا سے دور رکھا جائیگا 
پھروہ دوزخ میں داخل کر دئے جائیں گے اور کہا جائیگا کہ یہ ہے وہ چیز جسے تم جھٹلاتے تھے۔
اللہ کی مندرجہ بالا آیات پڑھ کر گھر سے نکلنے والا اللہ کا وہ بندہ جس کا اللہ پر ایمان کامل ہو وہ ناپ تول میں بڑھا کر تو دے سکتا ہے لیکن دینے میں گھٹ تولی نہیں کر سکتا ،لیکن وہ شخص جو مذکورہ آیات کا مطلب نہ سمجھے اور محض یہ جان کر صبح صبح قرآن کی تلاوت کرے کہ اس کے پڑھنے سے گھر میں برکت ہوگی اور اس کے لئے نیکیوں کے انبار لگ جائینگے وہ چاہے گھر سے پورا قرآن پڑھ کر نکلا ہو ناپ تول کے معاملے میں وہ اور ایک غیر مسلم دونوں کا رویہ ایک جیسا ہوگا ،بعید نہیں کہ وہ بھی دودھ میں پانی ملا کر بیچے یا دن بھر دکان پر بیٹھ کر ڈنڈی مارتا رہے ،نقلی مال کی تجارت کرے اور اصلی مال کی قیمت وصولے ۔
ایک دوسری مثال لیجئے ۔
* ماں باپ کا ادب و احترام اور ان کی خدمت کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے اور وہی اچھی اولاد کہلانے کے مستحق ہیں جو ماں باپ کا پورا پورا احترام کرتی ہو،عمومی طور پر اس بات کو جاننے اور سمجھنے میں ایک مسلمان اور غیر مسلمان دونوں برابر ہیں لیکن ایک اللہ پر ایمان یقین رکھنے والا انسان جب قرآن میں سورہ اسرأ کی یہ آیات پڑھتا ہے۔
وَقَضیٰ رَبُّکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا لخ 
اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ،اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہنا اور نہ ان سے جھلّا کر بات کرنا اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرنااور ان کے سامنے نگاہ عجز جھکا ئے رکھنا اور ان کے لئے دعا کرنا کہ اے میرے رب (کریم) ان کے ساتھ رحم کا معاملہ فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔ (سورہ اسرأ ۲۳)
ایک بندۂ مؤمن جب پورے اعتقاد و احترام کے ساتھ مذکورہ آیت کے مفہوم و مطالب کو سمجھ کر پڑھے گا تو لا محالہ اس کا اپنے ماں باپ کے تئیں سلوک و رَوَیّہ اس غیر مسلمان سے مختلف اور کہیں بہتر ہوگا جو قرآن جیسی مقدس کتاب سے محروم ہے ،لیکن جو مسلمان مذکورہ قسم کی آیات کی لفظی تلاوت محض اس لئے کر رہا ہے کہ اس تلاوت سے اس کے اوپر نیکیوں کی بارش ہو رہی ہے اور ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں اس کے اعمال نامے میں درج ہو رہی ہیں ،بس اس کے سوا اُسے یہ بھی علم نہیں کہ جن آیات کی تلاوت کر کے اس نے اپنی دانست میں اپنے لئے جنت الفردوس میں محلات تعمیر کر لئے ہیں اُن آیات میں اُس کو اُس کے مالک اور خالق نے کچھ ضروری نصیحتیں اس کے ماں باپ کے متعلق کی تھیں ،ظاہر ہے کہ ماں باپ کے حق میں اِس مسلمان کا رَوَیہ اور اُس غیر مسلمان کا رَوَیہ جو قرآن کی نعمت سے محروم ہے ،ایک جیسا ہوگا اور وقت پڑا تو یہ دونوں اپنے اپنے ماں باپ کو’’ اولڈایج ہوم‘‘ میں بھیجنے سے گریز نہیں کرینگے ۔
ذرا تصور کیجئے اس شخص کے بارے میں جس نے مسجد میں بیٹھ کر مذکورہ قسم کے مفہوم و مطالب کی آیات قرآن کی تلات کیں اور گھر آکر ماں یا باپ کے سر چڑھ دوڑا ،کیا اسے بھی ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملنی چاہئیں؟اسی پر پورے قرآن کو قیاس کیا جا سکتا ہے ۔
اسلام کا بنیادی اور فرسٹ آئین قرآن ہے،اللہ کے رسول پر نبوت کے تیئیس سالوں میں قرآن نازل ہوا تھا کچھ اور نہیں اس لئے قرآن پہلے ہے باقی سب بعد میں ہیں لیکن جب عام مسلمان کو اُسے سمجھنے سے ہی روک دیا گیا ہو اور عبادت کے نام سے محض چند رسوم سامنے کر دی گئی ہوں جہاں ایک مسلمان کا معیار ایمان محض حلیہ اس کے کپڑے اور مخصوص وضع قطع کو ہی سمجھا جا ئے ایسے سماج کے افراد میں آپ کو دور اول کے مسلمانوں کی خصوصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گی۔
یوں تو قرآن میں بہت سے احکامات ہیں جن کا مطالبہ اللہ نے بندوں سے کیا ہے ان احکامات کو فرضیت کا درجہ حاصل ہے جن کو سر انجام دینا مسلمان کے لئے ضروری ہے ان کا منکر کافر اور انجام نہ دینے والا فاسق ہے ،یہ احکامات زیادہ تر ایک ایک دو دو جملوں میں کہے گئے ہیں نماز وروزے کا حکم ،ماں باپ کی عزت وتکریم ،تکبر نہ کرنا ،پیٹھ پیچھے برائی نہ کرنا ،بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا کسی کو برے نام سے نہ پکارنا ،لکھ کر لینا لکھ کر دینا ،لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین کرنا او ربرے کاموں سے روکنا ،برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ،غریبوں ،کمزوروں ،مظلوموں کی مدد کرنا ،پڑوسی کے حقوق اور اس سے اچھا سلوک وغیرہ وغیرہ بہت سے احکامات ہیں جو ایک ایک دو دو جملوں میں ارشاد ہوئے ہیں ،لیکن ان کے علاوہ ایک حکم اور ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے یعنی وہ توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتا جب تک کہ بندہ صاحب حق کو اس کی ادائیگی نہ کردے یہ حکم ہے وراثت کا یعنی جائداد میں بٹوارے کا بطور خاص بیٹوں کے مقابلے بیٹیوں کو جائداد میں حصہ دینے کا ،قرآن کا یہ حکم کئی طور سے دیگر احکامات سے ممتاز ہے سب سے بڑی بات تو یہ کہ اسے ایک دو جملے میں نہیں کئی صفحات میں تفصیل سے بیان کیا گیا ،بطور خاص جہاں اولاد کے حصص کی بات ہے تو اس کو بیان کرنے کے لئے کہ اولاد کے درمیان لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا ،اس کو بہت ہی اہم لفظ سے بیان کیا ہے اور وہ ہے وصیت کا لفظ ،یُوصِیکُمُ اللہُ(سورہ نسأ آیت۱۱)اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے،اگر کوئی بڑا وصیت کرجائے تو اس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے لیکن اللہ کی وصیت کا جب انہیں کو خیال نہیں جو قرآن کے علم بردار ،اس کے محافظ و نگراں اور مبلغ سمجھے جاتے ہیں تو عام مسلمانوں کی تو بات ہی کیا کی جائے ،جب کے اس حکم کی اہمیت جتانے کے لئے صرف لفظ وصیت پر ہی اکتفاء نہیں بلکہ قریب دو صفحوں پر محیط اس موضوع کی وضاحت کر نے کے بعد ان احکامات کے متعلق کہا گیا کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں تِلکَ حدُ ودُاللہ(سورہ نسأآیت ۱۳)جب کوئی بڑا اپنے ماتحت کو کوئی سخت اور تاکیدی حکم دیتاہے تو اس طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ اپنی حدمیں رہنا ،حد سے باہر نہ جانا،وغیرہ وغیرہ،جب کے یہاں پر تو اللہ نے حد کاتعین کرکے اگلی ہی آیت میں اس سے بڑھ کر سخت بات کہدی چنانچہ ارشاد ہوا کہ جو اللہ کی حدوں کو لانگ جائے گا اللہ اس کو ہمیشہ ہمیش کی آگ میں داخل کرے گا اور اس کے لئے ذلت والا عذاب ہوگا (سورہ نسأآیت ۱۴)۔
وراثت کا یہ مسئلہ جو قرآن کریم میں اس قدرتفصیل سے اور سخت لفظوں میں بیان کیا گیا ہے اس کو اگر چہ اللہ کے کچھ نیک بندے ادا کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں ان کی مقدار آٹے میں نمک کی مانند بھی نہیں ،تناسب نکالا جائے توایک فیصد بھی نہیں آئے گا ،وجہ کیا ہے ؟وجہ صرف یہ ہے کہ اس مسئلے کو دینی جلسوں میں ،اجتماعات اور تقریروں میں ،روزمرہ کی تعلیم میں’’دو رکعت کے امام ‘‘ اُٹھاتے ہی نہیں ،عوام بے چارے تو اللہ کی سیدھی سادی مخلوق ہوتے ہیں انہیں ان کے رہنما جس راستے پر چاہیں لگادیں وہ ادھر ہی چل پڑ تے ہیں لہٰذا اس مسئلے کے بالمقابل کچھ دیگر اشیأ کے جن پر دینی اجتماعات اور جلسوں میں اور روز مرہ کی تعلیم اور تقریروں میں زیادہ زور دیا جاتا ہے مثلاطویل ڈاڑھی،ڈھیلا کرتا اونچا پائجامہ اور سر کے بال وغیرہ یعنی ظاہری حلیہ جس پر ہم کثرت سے’’دو رکعت کے اماموں ‘‘کے خطبات سنتے ہیں ان پر عوام کا اتنا عمل تو ہے کہ اس دو ر کے مسلمان کی پہچان ان ہی اشیأسے ہو کر رہ گئی ہے ۔
مسلمان کی اس پہچان سے اعتراض نہیں لیکن یہ اشیأ تو انسانی اقدا ر میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں لاتیں اس لئے شریعت میں ان کی اہمیت کا اندازہ بمقابلہ مسئلۂ وراثت اور ان چند احکامات کے جن کا ذکر آیاہی چاہتا ہے اس بات سے کیجئے کہ قرآن کریم جو دین و شریعت کا بنیادی مأخذ ہے اس میں ان اشیأکی اہمیت کاکوئی معمولی سا بھی ذکر نہیں ہے ،یہ مانا کہ احادیث میں ہے لیکن وہاں بھی ان میں سے کسی پر نہ تو مسئلۂ وراثت کی مانند جنت کا وعدہ ہے اور نہ ہمیشہ ہمیش کی آگ میں ڈالے جانے کی وعیدیں ،وہاں جن کاموں پر وعدے اور وعید ہیں وہ ہیں انفاق فی سبیل اللہ، اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا، غریبوں کمزوروں ،ضروتمندوں کی مدد کرنا ،یتیموں ،مسکینوں کی داد رسی کرنا ،ہر معاملے میں عدل کرنا بلکہ عدل سے بھی بڑھ کر احسان کرنا اِنِّ اللہَ یَأمُرُکُم بِالعَدل وَ الاحسَان(سورہ نحل آیت۹۰)،پڑوسی کے حقوق رشتے داروں ،قرابت داروں کی مدد اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرنا ،وعدہ کر لینا تو اسے پورا کرنا واوفوا بالعَہدِ اِنَّ العھدَ کانَ مسؤلاا (سورہ اسرأ۳۴) وعدہ پورا کرو،بے شک وعدے کے بارے میں سوال کیا جائے گا ایک دوسرے مقام پر نیک لوگوں کی نشانی بتاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ جب وعدہ کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں وَالمُؤفُونَ بِعہدھم اِذا عاھدوا(سورہ بقر۱۷۷)جھوٹ نہ بولنا جھوٹی گواہی نہ دینا، اللہ کی متعین کردہ حدوں سے تجاوز نہ کرنا ،غیبت ،عیب جوئی اور تجسس سے اجتناب کرنا اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اللہ کو یاد رکھنا اور یہ تصور قائم رکھنا کہ میں بہر صورت اللہ کی نگرانی میں ہوں اور میرا ہر عمل اور زبان سے نکلی ہر بات کا اللہ کی نگرانی میں ر کارڈ تیار ہو رہا ہے جس کا مجھے ایک دن حساب بھی دینا ہوگا، وغیرہ وغیرہ ۔یعنی قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ایک کامل مسلمان بن کر رہنا۔ 
اگر ایک مسلمان کی پہچان قرآن کریم کی ان تعلیمات سے ہوتو ظاہر ہے کہ ایک ایسا انسانی معاشرہ تشکیل پائے گاجو منفرد معاشرہ کہلانے کا حقدار ہوگا ،اسی انسانی معاشرے کے ساتھ اللہ کی مدد کا وعدہ ہے اور ایسا معاشرہ ہی حامل قرآن کہلانے کا مستحق ہے ۔ 
ایک مسلم بزرگ کا واقعہ
انگریزی دور حکومت کا ایک واقعہ یوں بیان کیا جا تا ہے کہ کسی جگہ ایک قطعہ ارضی کو لے کر مسلمانوں اور ہندؤں کے مابین تنازع تھا دونوں فریق اس کی ملکیت کے دعوے دار تھے مقدمہ عدالت میں انگریز افسر کے رو برو پہنچ گیا بات گواہی کی آئی تو اسی شہر میں کوئی ایسے بزرگ بھی تھے جن پر دونوں فریق مکمل اعتماد کرتے تھے ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے،یقیناًوہ قرآن پڑھتے ہونگے اور انہیں معلوم ہو گا کہ صدیقین کا درجہ انبیأ وشہد ا کے ساتھ ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ رسول اللہ ﷺ کی دو بڑی صفات جن کو دشمن بھی تسلیم کرتے تھے وہ آپ ﷺ کا صادق اور امین ہونا تھا، لہٰذا دونوں اس پر متفق ہو گئے کہ وہ بزرگ جس کے حق میں گواہی دے دیں زمین اسی کی تسلیم کر لی جائیگی، بالاٰخر انہوں نے ہندؤں کے حق میں گواہی دی لہٰذا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں ہوا ور زمین ان کو دے دی گئی، اس قصہ کا موازنہ ایک دیگرحقیقیتِ واقعہ سے کیجئے ،ہم نے اس مضمون کے شروع میں ایک مسجد کے امام کا ذکر کیا تھا جنہوں نے چند لوگوں کو غریبوں کا تعاون کر تے دیکھا تو ان کو لگا کہ یہ کوئی یہود ونصاری کی سازش ہے بھلا مسلمان ایساکام کیوں کر انجام دے سکتے ہیں لہٰذا وہ حرکت میں آگئے اور انہوں نے فون سے میسیج کر کے اولا یہ سوال کیا کہ آپ لوگوں کے پاس پیسہ امریکہ سے آرہا ہے یا لندن سے آرہا ہے اور یہ بھی سوال کیا کہ یہ کام آپ لوگ امریکہ کے لئے کر رہے ہو یا اسرائیل کے لئے۔
اس واقعہ سے یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ رفاہ عام اور خدمت خلق کا کام اس دور کے مسلمانوں میں اس قدر اجنبی ہے کہ اگر کوئی معمولی درجے پر بھی یہ کام کرے تو اپنے ہی لوگوں کو یقین نہیں آتا کہ مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے اور انہیں یہ لگنے لگتاہے کہ یہ کام تو یہود ونصاریٰ کا یا غیر مسلم ہندوؤں کا ہے اگر کچھ مسلمان ایسا کر رہے ہیں تو ضرور اس میں کوئی سازش ہے اور ایسا کر نے والے دشمنوں کے آلۂ کار ہیں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔
یہی وجہ ہوئی کہ جب مذکورہ دل آزار دو پیغامات مصول ہو نے کے بعد انہی صاحب کے فون سے تیسرا پیغام یہ موصول ہوا کہ ہم جلد ہی مسجد مسجد جا کر مسلمانوں کو تم لوگوں سے ہوشیار رہنے کے لئے عوام میں بیداری پیدا کر نے کا کام کرینگے تو چندساتھیوں نے ان کے فون نمبر پر جس سے مذکورہ پیغامات موصول ہوئے تھے رابطہ کر کے معلوم کر نا چاہا کہ موصوف کون ہیں تو آنجناب نے بتایا کہ وہ ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور جب ساتھیوں نے ان سے یہ پوچھا کہ ان کو غریبوں کی مدد کر نا یہود و نصاری کی سازش کیسے نظر آئی تو جناب کو کوئی جواب نہ بن پڑا لہٰذا جھوٹ کا ایٹم بم پھینکتے ہوئے یہ فرمایا کہ میں نے جن صاحب کو یہ میسیج کیا ہے وہ میرے بے تکلف دوست ہیں اور میں نے یہ سب مذاق میں لکھا ہے، بندے نے ساتھیوں سے یہ بات سنی تو مجھے بھی لگا کہ ہوسکتا ہے ایساہی ہو لہٰذا میں نے تصدیق کے لئے اجنبی بن کر اسی نمبر پر بات کی تو جناب مجھ سے بھی میرا نام لے کر یہی فرما رہے تھے کہ وہ تو میرے بے تکلف دوست ہیں اورمیں نے تو یہ باتیں مذاق میں لکھی ہیں ،اُنہوں نے اِن باتوں کو سنجیدگی سے لے لیا میں نے ان سے نام پوچھا تو انہوں نے مظاہر الحق بتا یا میں نے سوشل میڈیا کے واسطے سے جناب کا فوٹوملاحظہ کیا تو معلوم ہوا میری ان سے دوستی کیا کوئی دور کی بھی دید شنید نہیں ہے ۔
یہ تفصیل پیش کر نے کا مطلب یہ ہے کہ سچ بولنا جھوٹ نہ بولنا صدق و امانت جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ مومن سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا ،جھوٹ کا شمار کبیرہ گناہوں میں کیا گیا ہے ،قرآن میں صدّیقین کا شمار شہدأ کے ساتھ ہے لیکن اس کی اہمیت وہ سمجھے جو قرآن کو سمجھ کر پڑھے مگر جو قرآن کو سمجھنے پر ہی پابندی لگائے خود سمجھے نہ دوسروں کو سمجھنے دے اس کے یہاں سچ بولنے کی اہمیت بس ایسی ہی ہو گی جیسی ایک غیر مسلم کے یہاں ہے، جھوٹ بولنا جس قدر ایک غیر مسلم برا سمجھے گا بس ایسا ہی ایک عام مسلمان یا ایک مسجد کا امام بھی سمجھے گا ۔
ایک دوسری مثال دیکھئے ،جیسا کہ ذکر ہوا کہ مذکورہ امام صاحب نے لکھا تھا کہ ہم جلد ہی عام مسلمانوں کو تم لوگوں سے ہوشیار کر نے کا کام کرینگے لہٰذا وہی صاحب جنہوں نے یہ کہہ کر ساتھیوں کو مطمئن کر دیا تھا کہ جن کو میں نے یہ میسیج بھیجا ہے وہ میرے بے تکلف دوست ہیں انہیں کے بارے میں برابر یہ خبریں ملتی رہتی ہیں کہ آج یہاں بیٹھے غیبت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے اور کل وہاں بیٹھے ۔
قرآن میں غیبت کرنے سے کس قدر سخت لہجے میں روکا گیاہے اس کا اندازہ اسے ہو سکتا ہے جوقرآن میں درج اس کے مفہوم کو سمجھے، قرآن کریم میں ایسے شخص کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے جیسا کہا گہا ہے (سورہ حجرات آیت ۱۲)جو قرآن کریم کوحکم ربِ کریم جان کر پورے اعتقاد کے ساتھ اسے سمجھ بوجھ کر پڑھے گا اس کے تو رونگٹے کھڑے ہو جائینگے اور وہ اس برائی سے رُکنے کی کوشش کرے گا ورنہ عمومی طور پر تو ایک کافر بھی یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا بری بات ہے ،لہٰذا جیسا ایک کافر اس سے رُکتا ہے ایسا ہی ایک مسلمان رُکے گا چاہے وہ اماموں کا امام ہی کیوں نہ ہو۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ غیبت (کسی کی پیٹھ پیچھے برائی )پر وعید بیان کر رہے تھے تو صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر وہ برائیاں اس شخص میں ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا کہ تبھی تو غیبت ہے اور اگر وہ برائی اس میں موجود نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہے ،جس کی سزا آخرت میں جو ملے گی وہ تو وہاں ملے گی ،دنیا میں بھی ایسے شخص کے لئے اسی کوڑے لگانے کی سزا ہے ۔
بہر حال ’’ان دو رکعت کے اماموں‘‘ نے کچھ ثانوی درجے کی ظاہری اشیأ (لباس اور حلیہ وغیرہ)کو دین کا پہلا پائیدان بنالیا ہے جب کہ نصوص معقولی و منقولی سے وہ ان سب چیزوں کی حیثیت استحباب سے زیادہ ثابت کر نے سے قاصر ہیں ،ثانوی درجے کی اِن اشیأ کو اپنانے پر قرآن و حدیث میں جنت کا وعدہ نہیں ہے اور چھوڑنے پر وعید نہیں ہے،انہیں انجام دینے میں کسی طرح کی معاشرتی ،اخلاقی ،یا کسی دیگر قسم کی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوتی، مذہب اسلام کی جس قدر بھی تعلیمات ہیں جن کا بنیادی مأخذ قرآن کریم ہے وہ سب کی سب ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے میں معاشرتی تبدیلی واقع ہوتی ہے ،کلمہ کا اقرار کر کے انسان خود کو اپنے خالق کی سپردگی میں دیکر دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوجا تا ہے، نماز سے نمازی کے اندر ہمہ وقت اپنے خالق ومالک کی نگرانی میں رہنے کا احساس جاگتا ہے جو گناہوں سے رُکنے کا سبب بنتا ہے ،زکوٰۃ سے اقتصادی ناہمواری کا ازالہ ہوتا ہے ،روزے سے غریبوں کے درد کو سمجھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے ،اس کے بعد دیگر قرآنی تعلیمات کو لیجئے ،سماج و تمدن اورمعاشرے کی ترقی کے نکات قدم قدم نظر آئینگے ،غریبوں کی مدد پڑوسیوں کے حقوق ،والدین کی خدمت اور ان کا احترام ،آپسی لین دین اور تجارت کے اصول ،برے کاموں کے ارتکاب پر تعزیرات اور نیک کاموں پر جنت کا وعدہ ،وغیرہ وغیرہ، ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کرتے نظر آتے ہیں ،لیکن بنیادی چیزوں کو چھوڑکر اگر ڈاڑھی ٹوپی کرتا پائجامہ جیسی خارجی اشیأ کو اصل الاصول بنا لیا جائے جو کسی بھی طرح معاشرے میں تبدیلی کا سبب نہ بنیں تو پھر ایک مسلم معاشرے اور غیر مسلم معاشرے میں کوئی فرق نہیں ہو گا ،اور اگر کچھ فرق ہوگا تو یہ کہ مسلمان حامل قرآن ہوکر بھی اس کے احکامات کو نظر انداز کر نے کے جرم میں اللہ کے عتاب کے مستحق ضرور ٹھہرینگے۔ 
مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا دور پہلے بھی گذر چکا ہے یہ دور وہ تھا جس کے بعد دنیا کے ظالم ترین حکمراں ’’ہلاکو‘‘ کی سر کردگی میں وحشی تاتاریوں نے مسلم دنیا پر قہر برپا کر کے اسے تہہ و بالا کر دیا تھا اور ان کے دارالخلافہ بغداد کی گلیوں کو خون سے بھر دیا تھا اس نے انسانی کھوپڑیوں سے بغداد میں گنبد تعمیر کرایا تھا مذہبی کتابوں کے کتب خانوں میں آگ لگوا کر دریا ئے فرات اور دجلہ کی نظر کر دیا تھا ،لکھا ہے کہ کتابوں کی سیاہی سے مہینوں تک دریائے دجلہ اور فرات کا پانی سیاہ نظر آتا رہا ،تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ وہ مسلم قوم جو کبھی پوری دنیا سے خراج وصول کرتی تھی اِس دور میں اُس کے خوف کا عالم یہ تھا کہ ایک تاتاری عورت ایک مسلمان کو دیکھتی اوراسے کہتی کہ رُک جا ،میں گھر سے تلوار اُٹھا کر لاتی ہوں تجھے قتل کر نا ہے ،تو مسلمان کی ہمت نہیں تھی کہ بھاگ جائے بلکہ وہ اس کے خوف سے وہیں ٹھہرا رہتا تھا اور قتل ہوجاتا۔
ہم نے اس مضمون کے شروع میں اسلامی تاریخ کے مشہورناول نگار مؤرخ ’’نسیم حجازی ‘‘ کے حوالے سے لکھا تھا کہ جس وقت تاتاری مسلمانوں کوقتل کر نے کے لئے اپنی تلوار اور نیزے درست کر رہے تھے اس وقت مسلم علمأ ان باتوں کی بحث و تکرار میں ملوث تھے کہ کونسا فرقہ حق پر ہے ۔
ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ اس دور سے کافی مماثل نظر آتا ہے، اللہ خیر کا معاملہ فرمائے 
ایک اور تجزیہ نگار نے اس دور کے مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔
عباسی دور میں مسلمانوں کے اندر دینی زوال آیا ،اس زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ کچھ رسمی اعمال اور مخصوص وضع قطع دیندار ی کی علامت بن گئے ۔ 
ماہنامہ ۔ الرسالہ ،نومبر ۲۰۰۹ ؁ء 
عباسی دور کا خاتمہ تاتاریوں کی یلغار کے بعد ہی ہوا ،اس یلغار سے نہ صرف خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا بلکہ مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جانے والا پورا جزیرۃ العرب تہہ وبالا ہو کر رہ گیا اور کوئی بعید نہیں تھا کہ اسلام کے مقامات مقدسہ بھی وحشی تاتاریوں کے ہاتھوں پامال ہو جائیں کہ اللہ نے انہیں وحشی تاتاریوں کے لئے ہدایت کاسامان کر دیا اور رفتہ رفتہ وہ پوری قوم ہی مسلمان ہو گئی ۔
اسی کو علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کہا ہے کہ ۔
ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے 
مؤرخین نے لکھا ہے کہ جہاں (تاتاریوں کے مقابلے پر )مسلمانوں کی تلواریں کند ہو گئیں وہاں اسلام کی حقانیت نے تاتاریوں کو زیر کردیا اور وہ سب دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے پھر انہیں میں سے عثمانی ترکوں کی وہ جماعت بروئے کار آئی جس کے جلو میں ملت کی نشاۃ ثانیہ کے دور کی ابتدا ہوئی اور انہوں نے اس عظیم خلافت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی جس نے ایک بار پھر صدیوں تک اسلام کا پرچم پوری دنیا پر اس وقت تک لہرا ئے رکھا ،جب تک اس کی نا قابل تسخیر طاقت کے قلعے کو دشمنوں نے گھر کا بھیدی بن کر ڈھا نہ دیا ،جس میں دو رکعت کے اماموں کا پورا پورا ہاتھ ہے۔
انسانی تاریخ کایہ اہم واقعہ مسلمانوں کے لئے تازیانۂ عبرت ہے لیکن دو رکعت کے اماموں نے اس حادثۂ قیامت صغریٰ کو بھی اپنی خرافات کے لئے خوب استعمال کیا چنانچہ دو رکعت کے اماموں کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں میں تاتاریوں کے قبولیت اسلام کے واقعے کی تشریح ،بطور خاص یہ کہ اجتماعی طور پر پوری قوم کے اسلام قبول کرنے کی وجہ کیا تھی؟اس کے متعلق کم ازکم تین طرح کی کہانیاں تو بذات خود راقم نام نہاد مذہبی کتابوں میں پڑھ چکا ہے ،آپ نے بھی یقیناًمذہبی محفلوں میں یہ من گھڑت قصے مختلف زاویوں سے ضرور سنے ہونگے ،جو کچھ یوں ہیں ۔
ایک صاحب نے بیان کیا کہ در اصل مسلمان تاتاریوں پر ظلم کیا کرتے تھے توایک بار تاتاری قوم نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا کہ چلو مسلمانوں کے خدا سے ہی مدد مانگتے ہیں لہذا اُنہوں نے ایک پہاڑی پر جمع ہو کر یہ دعا کی کہ اے مسلمانوں کے خدا یہ تیرے نام لیوا ہمارے اوپربڑا ظلم کرتے ہیں تو اگر سچا خدا ہے تو ہمیں ان کے ظلم سے نجات دے ،یہ دعا کرنے پر غیب سے آواز آئی کہ تم ان کے اوپر حملہ کر دو ہم تمہارا ساتھ دینگے ،غیب سے یہ آواز سنی تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور مسلمانوں کو قابل عبرت سزا دی حتیٰ کہ پوری مسلم قوم کو تہہ وبالا کر ڈالا،اس کے بعد وہ پھر ایک جگہ جمع ہو ئے اور اس بار یہ چرچا ہوئی کہ ہم نے مسلمانوں کے خد ا ہی سے تومدد مانگی تھی جو اس نے کی ،تو اب ہمیں اس کا شکر گذار ہوتے ہوئے اس کی معبودیت کا اقرار کر لینا چاہئے اوراس طرح وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے ۔
جب کہ تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ تاتاری بھی کسی دور میں مظلوم قوم رہی ہو ،اس لئے یہ محض بے صفحے کی بات ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔
دوسرا قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک تاتاری حکمراں نے مسلمانوں کی ایک بستی کو خالی کرنے کا حکم دیا تو بستی خالی کر دی گئی لیکن ایک مسجد میں دو افراد قرآن کی تلاوت میں مشغول رہے اور بستی چھوڑ کر نہ گئے لہٰذا تاتاریوں کے حکمراں نے انہیں گرفتار کر کے اپنے روبرو حاضر کرایا اور ان سے وجہ پوچھی توانہوں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ،اس نے کہا کہ قرآن کیا ہوتا ہے مجھے بھی اس کی تلاوت کر کے سناؤلہٰذا اس نے قرآن کی تلاوت سنی اور ایسا متأثر ہوا کہ مسلمان ہو گیا اور اس کے مسلمان ہونے سے اس کی پور ی قوم مسلمان ہو گئی ۔
اور تیسرا قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تاتاری اپنے کتے کو گھمانے لئے جا رہاتھا راستے میں اسے ایک مسلمان ملا اس نے مسلمان کو قتل کر نے کا بہانا تلاشتے ہوئے مسلمان سے پوچھا کہ بتا تو اچھا ہے یا میرا یہ کتا تچھ سے اچھا ہے اس نے سوچا کہ اگر میں نے خود کو اچھا کہا تو یہ شخص مجھے قتل کر ڈالے گا لہٰذا اُس نے یہ جواب دیا کہ میرے پاس ایمان کی دولت ہے اگر میں اس سے محروم ہو جاؤں تو پھر یہ تیرا کتا ہی مجھ سے بہتر ہے تاتاری نے پوچھا کہ ایمان کیا ہوتا ہے ،مسلمان نے اسے ایمان کی تفصیل سمجھائی اور بات اس کی سمجھ میں آگئی لہٰذا تاتاری نے مسلمان سے کہا کہ میں شاہ وقت کا ولیعہد ہوں جب میں حکمراں بن جاؤں گا تو تم مجھ سے ملنا اور مجھے بھی اسلام میں داخل کر لینا لہٰذا جب وہ بادشاہ بن گیا تو یہ مسلمان بڑی مشقت سے کسی طرح اس سے ملا اور وہ تاتاری بادشاہ مسلمان ہوگیااور پھر اس کے مسلمان ہونے سے تمام تاتاری مسلمان ہو گئے ۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی وحشی اور بربر قوم کا مسلمان ہوجانا اتنا آسان ہے جس کام کے لئے اللہ کے محبوب نبی نے پتھر کھائے اس کو اس قدر آسان بنا کر پیش کر دینا ان دو رکعت کے اماموں کا ہی کارنامہ ہے یہ قصے کہانیاں ان کتابوں میں درج ہیں جن کو ’’یہدو رکعت امام‘‘ قرآن کو نظر انداز کر تے ہوئے عامۃالمسلمین کو پڑھواتے ہیں اور انہیں تقریروں میں سناتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ تینوں ایک ساتھ سچ نہیں ہو سکتے ان میں سے یاتو کوئی ایک سچا ہو گا تو دوسرے دو لازمی جھوٹ ہونگے، اور سچ تو یہ ہے کہ یہ تینوں جھوٹ ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ تاتاریوں نے لاکھوں مسلمانوں کو تو تہہ تیغ کر دیا تھا جو بچ رہے تھے ان میں سے بہت سے غلام اور باندیاں بنا لئے گئے اور جو کسی طرح بچ گئے ان میں سے کچھ ذی شعور افراد نے مشن کے طور پر تاتاریوں میں دعوت دین کا کام کیا اور ان کو اسلام کی قدر و قیمت سمجھائی ایک جانب ان افراد کی محنت تھی تودوسری جانب تاتاری اپنے مسلمان غلام اور باندیوں کا اسلامی طرز عمل دیکھتے تھے جو ان کو بے حد متأثر کرتا تھا اس دہرے تأثر سے رفتہ رفتہ پوری قوم اسلام کے آغوش میں آگئی اور پھر وہی دنیا کے سامنے اسلام کے لئے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے ۔
آج اس ملک میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ بعینہ ایسے ہی نظر آرہے ہیں جیسے مسلمانوں کے اس وقت کے دارالخلافہ بغداد کی تاریخ میں تاتاریوں کے حملے سے پہلے کے پڑھنے کو ملتے ہیں وہی آپسی فرقہ بندی ،وہی اپنے حق میں جنت کے جملہ حقوق محفوظ کر لینا اور دوسرے کو کافر اور جہنمی کہنا اور سمجھنا وہی مذہب کے نام پر صرف ظاہری وضع قطع کو اہمیت دینا اور مذہب کی حقیقی تعلیمات سے روگردانی کر نا (اللہ تعالی اپنے امان میں رکھے )آج بھی حل صرف اور صرف دعوت کاعمل ہے، اس وقت ملک کے فرقہ پرست مخصوص ٹولے نے ملک میں بسنے والی دو بڑی آبادیوں مسلم اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین نفرت کی گہری خلیج پیدا کر دی ہے جس نے صورتحال کودھماکہ خیز بنا کر رکھ دیا ،نفرت کی یہ خلیج اسلام او رمسلمانوں کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط فہمیوں پر قائم کی گئی ہے ایسے میں جب ہم ایک غیر مسلم کے سامنے اسلام کی حقیقی صورتحال رکھتے ہیں تو دو میں سے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے یا تو اللہ اسے ہدایت سے نوازدیتا ہے نہیں تو اس کی غلط فہمی دور ہوتی ہے اور نفرتیں آپسی میل ملاپ میں تبدیل ہوجاتی ہیں ،لیکن کیا آپ نے اس بات پر غور کیا کہ دعوت کا یہ عمل جس کو اللہ کے رسول نے اپنی آخری سانس تک کیا اور پھر یہ ذمہ داری امت کے کندھوں پر ڈالی اور دور حاضر کا بھی یہی آخری حل ہے اُسے اگر اِس دور میں کوئی کر نے کھڑا ہو جائے تو سب سے زیادہ مخالفت انہیں دو رکعت کے اماموں کی جانب سے سامنے آتی ہے اور ایسا کر نے والا انہیں یہودیوں اور عیسائیوں کا ایجنٹ نظر آنے لگتا ہے ،اس دور میں جن افراد نے یہ کام شروع کیا ہے ان میں سے ایک بھی ان دو رکعت کے اماموں میں سے نہیں ہے جب کہ یہ کام انہیں کا تھا اس کے بالمقابل جس داعی نے جس قدر بڑے پیمانے پر کام کیا اس کی اسی پیمانے پر ان دو رکعت کے اماموں نے مخالفت کی ،اس ملک میں سب سے اونچے پیمانے کا کام ڈاکٹر’’ ذاکر نائک‘‘ کا تھا لہٰذااُنہیں کیا کیانہ کہا گیایہ سب کے سامنے ہے سب سے بڑا الزام تو یہی تھا کہ وہ یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ ہیں،جو انسان کفر کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہو جس کے سامنے کوئی بڑے سے بڑا مناظر نہ ٹھہرتا ہوجو تمام باطل مذاہب کو کھلا چیلنج دیتا ہو اور ہمیشہ جیتا ہو کبھی ہار کر اس نے اسلام یا مسلمانوں کو رسوا نہ کیا ہو، جس نے مسلمانوں کی نئی نسل کو نیا حوصلہ دیا ہو اور اس کی تقاریر سن سن کر وہ اپنے اندر نئی توانائی محسوس کر نے لگے ہوں جس شخص نے دنیا کو لات مار کر اسلام کے دفاع کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہو ،وہ بھی یہودیوں کا ایجنٹ ہوا تو پھر مسلمانوں کا ایجنٹ کیا صرف وہی ہیں جو اسے بس رسوا ہی کرنا جانتے ہیں ،اس دور کا مشہورامریکی مستشرق ڈاکٹرِ وِلیم گیمبَل جس نے دو درجن سے زیادہ کتابیں اسلام کے خلاف تصنیف کی لیکن دنیا میں موجود اسلام کے نام لیواؤں میں سے کوئی جواب دینے کے لئے سامنے نہ آسکا حتی کہ ذاکر نائک نے خود امریکہ جاکر اسے مناظرہ کے لئے للکارا ،نتیجے کے بطور دونوں کے مابین امریکہ کی ہی سرزمین میں کھلے اسٹیج پر مناظرہ ہوا جس میں ڈاکٹر وِلیم کی کراری ہار ہوئی، ادھر انڈیا میں مسٹر ارُن شوری نے ’’فتوؤں کی دنیا‘‘ نامی کتاب لکھ کر اسلام پر کیچڑ اچھالا تھا جس میں اس نے (نعوذ اللہ ) قرآن کو دنیا کی بدترین کتاب کہا اور اسی نام کا ایک باب اپنی تصنیف میں قائم کیا، اس کا جواب دینے کے لئے بھی کوئی سامنے نہیں آیا سوائے ذاکر نائک کے جس نے کھلے اسٹیج سے اس کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے اسے بارہا مناظرے کی دعوت دی ،ڈاکٹر ذاکر کے چیلنج کے بعد سے نہ تو وِلیم گیمبل کی کوئی تصنیف اسلام کے خلاف آئی نہ ہندوستان میں اَرُن شوری کا قلم اس موضوع پر اُٹھ سکا، ایک ایسا شخص جودنیا بھر میں کفر کی ہڈیاں پسلیا ں اس کے گھر میں گھس کر توڑ رہاہواور کبھی بھی ہار کا منہ دیکھ کر اسلام کی رسوائی کا سبب نہ بنا ہو بلکہ اس نے ہمیشہ اسلام کو سرخ رو ہی کیا ہو، اگر ایسا شخص بھی ان دو رکعت کے اماموں کی نظر میں یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ ہے تو پھر اسلام کا ایجنٹ کیا وہ ہوتا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو رسوا ہوتا دیکھے اور خاموش رہے ،ان دو رکعت کے اماموں کے عمل سے تو ایسا ہی لگتا ہے ،اور ان کا جال کتنا وسیع ہے اس کو بھی دیکھیں کہ اس ملک میں ایک طویل مدت تک یہ چلتا رہا کہ ہندو دہشت گرد جگہ جگہ بم دھماکے کر تے اور الزام مسلمانوں کے سرجاتا تھا کہ دو ہزار سات میں ایک ایمان دار جانچ افسر’’ ہیمنت کر کرے‘‘ ایسا سامنے آیا جس نے ہندو دہشت گردوں کی قلعی کھولنی شروع کی اوران کیسوں کے حقیقی کارندوں کو اس نے جیل میں پہنچانا شروع کر دیاجن کے جھوٹے الزام میں مسلم نوجوان جیلوں میں بند تھے ،ایک ایسا پولس افسر جو ملک کے مسلمانوں کے سر سے ناگہاں ان کے سرتھوپا ہوادہشت گردی کا الزام دھو رہا تھا اور اس کی جدو جہد سے ہندوستان کے مسلمان تھوڑا اطمینان کی سانسیں لینے لگے تھے کہ مبینہ خبروں کے مطابق پاکستان میں بیٹھے ایک دو رکعت کے امام نے دس دہشت گردوں کو ہندوستان بھیج کر۲۶؍۱۱ کے مشہور حادثے میں ہیمنت کر کرے اور اس کے ساتھی وِجے سالسکر کے ساتھ اس کی مکمل ٹیم کا ہی قتل کرا دیا ،۲۶؍۱۱ کے ممبئی حادثے کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان سے دس دہشت گرد بس ایک یہی کام انجام دینے آئے تھے ۔
دو رکعت کے اماموں کے اس عالمی نیٹ ورک میں ایک بات قدرے مشترک اور بھی ہے جو ذاکر نائک‘‘ کے تعلق سے نظر آتی ہے وہ یہ کہ ایک دوسرے کو کافر کہنے والے شیعہ ،سنی اور دیوبندی ،بریلوی یعنی بڑے بڑے مختلف ا لخیال گروپ ذاکر نائک جیسے داعیوں کی مخالفت میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں ۔ 
علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں شیطان کی زبان سے جو اشعار کہلوائے ہیں ان کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے اقبال کی نظم کے تصوراتی ابلیس کے مشوروں پر یہ’’ دو رکعت کے امام ‘‘پورا پورا عمل کر رہے ہیں ۔
جانتا ہوں میں، یہ امت حامل ِ قرآں نہیں ہے
 وہی سرمایہ داری بندۂ مؤمن کا دیں 
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکار ا شرع ِ پیغمبر کہیں 
چشم ِ عالم سے رہے پوشیدہ تو، خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقین
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات ہو نہ ر وشن اس خدا اندیش کی تاریک رات 
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے تابساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مؤمن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات 
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر جو چھپادے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات 
مست رکھو ذکر و فکر و سحر گاہی میں اُسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اُسے 
یہ ہے وہ خوف جو دو کعت کے اماموں کو لاحق ہے کہ بڑی مشکل سے تو انہوں نے شرع پیغمبر کو چھپایا تھا پھر یہ کون ہیں جو اس کو آشکارا کرنے پر لگے ہوئے ہیں ؟ایسے لوگوں کا راستہ روکنے کا آسان طریقہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ جو کوئی ایسا کام کرے جس میں شرع پیغمبر آشکارا ہو اُسے بے دین کہہ کر اس کی مٹی پلید کر دی جائے ان کے پاس یہی ایک ہتھیار ہے جس کے خوف سے کوئی ان کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں ہوتا ۔
میں نے ایک صاحب سے پوچھا جو خیر سے عالم دین بھی ہیں کہ ہمارے ساتھی سردیوں میں غریبوں کو سیکڑوں کی تعداد میں لحاف تقسیم کرتے ہیں ،کم از کم رمضان میں ہی سہی ان گھروں میں جن کے یہاں بظاہر کوئی کمانے والا نہیں ہے جن میں زیادہ تر بیوائیں یا مستقل بیمار ہوتے ہیں کم ازکم ایک مہینے کا راشن پہنچانے کا کام کرتے ہیں ،سال میں دو چار ایسے طلبہ کی فیس جمع کرا دیتے ہیں جو فیس نہ ہو نے کے سبب تعلیم سے محروم رہ جا تے، آخر ان کاموں میں برائی کیا ہے جو آپ لوگوں کو ہم ناگوار گذرتے ہیں تو آنجناب نے فرمایا کہ تمہاری جماعت میں دو لوگ تو جماعت اسلامی کے ہیں اور دو بریلوی ہیں اور تمہارایہی معلوم نہیں کہ تم کس جماعت کے ہو۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (علامہ اقبال)
ہم لوگ ہر ہفتے مل بیٹھتے ہیں اولاََ مطالعہ قرآن سے محفل کی ابتدأ کرتے ہیں پھر گزشتہ ہفتے کی کارکردگی اور اگلے ہفتے کا لائحۂ عمل طے کرتے ہیں ،دراصل ملت اس قدر گہری نیند سوئی ہو ئی ہے کہ ہم لوگوں نے ابتدأ میں ہی یہ طے کیا تھا کہ اگر اپنے اندر بیداری لانی ہے تو ہمیں کم ازکم ہر ہفتے کسی ایک دن مل بیٹھنا ہو گا اور قرآن سے جڑ نے کے لئے اس کو سمجھ کر پڑھنا ہوگا لیکن کرم فرماں دو رکعت کے اماموں کو یہ کام دین سے دوری ،اسلام دشمنی ،یہودیت اور عیسائیت نظر آنے لگی ، ایک دو رکعت کے امام نے سوشل میڈیا پر یہ سب الفاظ ہمارے ساتھیوں کے لئے استعمال کئے ہیں اور ان کے علاوہ بھی کچھ ان جیسوں کے مذکورہ قسم کے تبصرے سننے کو ملتے رہتے ہیں ۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کر کے تھانے میں 
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا ا س زمانے میں 
بیسوی صدی کے نصف اول میں اسلامی نشاۃثانیہ برپا کر نے کے لئے کئی تحریکیں کھڑی ہوئیں برصغیر میں برپا ہونے والی دو تحریکیں قابل ذکر ہیں ایک مولانا الیاس ؒ کی قائم کردہ تبلیغی جماعت اور دوسری مولانا مودودی ؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی ،تبلیغی جماعت کا ایک نکاتی پروگرام تھا ،لوگوں کو نمازی بنانا جس میں وہ کافی تک کامیاب رہی اور اس کی محنتوں سے وہ مسجدیں جو مسلمانوں سے خالی ہو چکی تھیں دوبارہ سے آباد ہو گئیں حتی کی آج یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جن علاقوں میں جماعت کا کام نہیں ہے وہاں کی مسجدیں نمازیوں کو ترس رہی ہیں،یقیناًیہ ایک اہم کام تھا جس کو سراہا جانا چاہئے ۔
دوسری جماعت تھی ’’جماعت اسلامی‘‘اس کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جس طرح قرآن کریم میں نماز کا ذکر ہے اسی طرح اور اسی پیمانہ کا ذکر اور حکم دونوں ،صدقات اور زکوٰۃ کا بھی ہے اس لئے جس طرح مسجد مسجد نماز کا بندو بست ہے اسی طرح زکوٰۃ کے لئے بیت المال بھی قائم ہوجس میں محلے کے مسلمانوں کی زکوٰۃ جمع ہو اور اس سے غریبوں کی مدد کی جائے ،اسی طرح اس کی یہ بھی پیش کش تھی کہ قرآن کریم میں دین اور دنیا ،دین اور سیاست، دین اور سماج الگ الگ نہیں ہیں اس لئے ایسی کو شش ہو کہ مسلمان کسی بھی میدان میں پیچھے نہ رہیں یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نفس انسان کے تزکیہ کل کی بات کرتی ہے وہ ماڈرن اسکول و کالج کھولنے کی بات کرتی ہے جہاں مسلم بچے اور بچیا ں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم حاصل کر سکیں ،اور غیروں کے اسکولوں و کالجوں میں جاکر ان کے کفریہ کلچر سے محفوظ رہ سکیں،وہ مسلم اسپتال کھولنے کی بات کرتی ہے جہاں مسلمانوں کو اسلامی ماحول میں علاج ومعالجہ اور نرسنگ کی سہولت میسر ہو ، وہ مسلمانوں کو سیاست میں مضبوط کر نے کی بات کر تی ہے یعنی وہ زمین سے جڑے مدوں کو اٹھا تی ہے ، مگریہ مسئلہ توشیطان پر بہت گراں گذرتا ہے بڑی مشکل سے تو اس نے تھپ تھپی دے کر اس قوم کو سلایاتھا پھریہ کون لوگ ہیں جو دوبارہ سے اسے جگانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا وہ علامہ اقبال کی شعری تخیل پرواز میں یوں سوچنے لگتا ہے کہ 
۔ ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں 
خواب سے بیدار ہوتا ہے جب ذرا محکوم گر 
پھر سلا دیتی ہے اس کو ،حکمراں کی ساحری
لہٰذا مولانا مودودی کی تحریک جماعت اسلامی کے سامنے دورکعت کے اماموں کا خون گرما گیا اور انہوں نے اس تحریک کے پیر اکھاڑ نے کی کوشش شروع کردی اور ان کی مخالفت میں ایک دور کی کوڑی یہ لے کر آئے کہ مودودی صاحب صحابۂ کرام پر تنقید کرتے ہیں ،اگر مودودوی صاحب نے صحاب�ۂ کرام پر کسی طرح کی تنقید کر کے کوئی گناہ کیا ہے تو اللہ کے حضور اس کے جوابدہ وہ خود ہونگے نہ کہ جماعت اسلامی کے وہ افراد جو قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مسلمانوں میں عصری تعلیم کے ادارے اور اسپتال کھولنے کی بات کرتے ہیں۔ 
یہ ’’دو رکعت کے امام ‘‘جو ہمارے زیر تبصرہ ہیں وہ مسلم تحریکوں ،مسلم جماعتوں اور فکری و نظریاتی گروپوں کے بارے میں کتنا علم رکھتے ہیں اس کا اندازہ آپ ذیل کے و اقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔
بات اس دور کی ہے جب آگرہ میں کچھ ہندوتو وادیوں کے ذریعہ کچھ انتہائی غریب مزدور مسلمانوں کو مکان وغیرہ بنا کر دینے کا لالچ دے کر اُن کو ہندو بنا نے کی تصویریں سامنے آئی تھیں،یہ حادثہ یقیناًکسی بھی صاحب ایمان کو متفکر کر نے والا تھا لہٰذا یہ تشویش لاحق ہو ئی کہ کہیں ہمارے آس پاس تو ایسے غریب مزدور افراد نہیں ہیں جو ان کا آسان لقمہ بن سکیں ،گھوم پھر کر دیکھا گیاتو ہمیں شہر سے باہر کئی ایسے کیمپ ملے جن میں انتہائی خستہ حالی میں ٹاٹ اور گَتّوں کی جھوپڑیوں میں ایک ایسا طبقہ رہائش پذیر ہے جس کا روزگار گندگیوں کے ڈھیر سے پَنّی یا کباڑی کی اشیأ تلاش کر کے اس کے سہارے دو جون کی روٹی مہیاکر نا ہے یہ لوگ زیادہ تر آسامی ہیں اور سب کے سب مسلمان ہیں جو اپنی غربت کے سبب عام معاشرتی زندگی سے دور رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں، ان سے بات کر کے پتہ چلا کہ مسلمان تو کوئی ان کی سُدھ نہیں لیتا ،مگر کچھ عیسائی تنظیمیں ضرور ان کے پاس آتی ہیں، ان میں سے کچھ نوجوانوں کو انہوں نے اپنے یہاں ملازم بھی رکھ لیا ہے وہ ان کے بچوں کو کام سکھاکر روزگار پر کھڑا کر نے کی بات کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اتوار کو ان کی سبھا میں آیا کریں ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کا جو بھی نام ہے اس کے ساتھ آپ مسیح لفظ کا اضافہ کر لیں تو آپ لوگ ہمارے ساتھی بن جاؤگے اور تمہارے مسائل ہم اپنے مسائل کی طرح حل کرائینگے ،ان لوگوں میں جو بزرگ افراد ہیں ان کے نام نو ر الاسلام ،نذر الاسلام ،رفیق الاسلام جیسے ہیں لیکن نئی نسل کے نام ایسے ہیں کہ مسلم وغیر مسلم میں امتیاز مشکل ہو جا تا ہے ۔
بہر حال ہم تین افراد تھے ،دو وہی جماعت اسلامی والے اور تیسرا یہ خاکسار ،ہم تینوں نے الگ الگ تین کیمپ پکڑ لئے اور روزانہ بعد نماز عصر ہم لوگ ایک گھنٹے کے لئے ان کے بچوں کو قرآن اور اردو پڑھانے جا نے لگے ،ان کے لوگوں میں اس بات کی تشہیر ہوئی تو ایک کیمپ اور نکل آیا اور اس کیمپ کے لوگوں نے آکر فرمائش کی کہ ان کے بچوں کو بھی پڑھایا جا ئے ،لہٰذا ایک چوتھے رضاکار کی تلاش میں راقم اپنے ایک معاون محمد نوشاد فون نمبر 8868018436 کے ساتھ برابر کے ایک مدرسے میں چلاگیا اور وہاں کے مولانا سے کوئی ایساآدمی دینے کی فرمائش کی جو خارجی و قت میں ایک گھنٹہ ان کے بچوں کو دینی تعلیم دے سکے اور انہیں یہ بھی بتایا کہ تین کیمپوں میں ہم تین لوگ یہ خدمت انجام دے رہے ہیں تو موصوف کہنے لگے کہ ہمیں پتہ ہے کہ جماعت اسلامی والے یہ شر پھیلا رہے ہیں اور تم لوگ بھی ان کا شکار ہو گئے ہو ،خیر سے نہ تو نوشاد بھائی جماعت اسلامی کے تھے اور نہ یہ خاکسار ہی جماعت اسلامی کا تھا ،لہٰذا اس حقیر نے اپنی معلومات میں اضافہ چاہتے ہو ئے مولاناموصوف سے پوچھا کہ حضرت یہ جماعت اسلامی والے کون لوگ ہو تے ہیں ،کہنے لگے کہ قادیانی ،میں نے کہا کہ میں کچھ سمجھا نہیں کہ قادیانی سے کیا مراد ہوتا ہے ،کہنے لگی کہ غیر مقلد ،میں نے کہا کہ میری سمجھ میں ابھی بھی بات نہیں آئی کہ یہ کون لوگ ہیں جن کا آپ ذکر کر رہے ہیں ،بولے یہ وہ لوگ ہیں جو مزاروں پہ چڑھاوا چڑھا تے ہیں ،یہ سن کر میں نے تو اپنا سر پیٹ لیا پھر بھی میں نے موصوف سے ان کی قابلیت ضرور پوچھ لی تو جناب نے خود کو ملک کی ایک بڑی اسلامی درسگاہ کا فارغ التحصیل عالم دین بتا یا ۔
یہ’’ دو رکعت کے امام‘‘ جن کے سہارے آج پوری امت چل رہی ہے اور انہوں نے مدرسوں مکتبوں اور مسجدوں میں اگلی نسل کی ایک بڑی تعداد کا مسقبل اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے ان کی قابلیت کا معیاربس یہی ہے ،ملک بھر میں پھیلے وہ ہزاروں بڑے تعلیمی ادارے جن سے ہر سال پندرہ پندرہ سال کا بیش قیمتی وقت صرف کر کے پانچ پانچ سو کی تعداد میں افراد فارغ ہوتے ہیں ان میں دس فیصد بھی ایسے نہیں ہوتے جو عربی میں ایک خط ہی لکھ سکیں یا کسی سے عربی زبان میں بات کر سکیں جب کہ انہوں نے آٹھ آٹھ اور دس دس سالوں تک عربی میڈیم سے ہی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے ،ان میں سے دس بیس فیصد ہی ایسے ہوتے ہیں جو اس نصاب تعلیم کے کچھ حصے کو پڑھا سکتے ہیں جسے انہوں نے عمر عزیز کے پندرہ قیمتی سال صرف کر کے پڑھاہے لہٰذا وہ درسی کتابوں کی تدریس میں لگ جاتے ہیں جہاں درسی کتابوں کی شروحات چھاننے کی مشقت سے انہیں اتنی فرصت ہی نہیں مل پاتی کہ وہ باہر کی دنیا کا مطالعہ کر سکیں ،باقی اسی فیصد جوبس اس قدر علم رکھتے ہیں کہ اردو زبان کا املأ لکھ پڑھ سکتے ہیں رہی زبان و ادب کی باریکیاں تو ان سے وہ اس حد تک نا آشنا ہوتے ہیں کہ اردو میں ایک درخواست بھی ادبی نکات کو ملحوظ خاطر رکھ کر لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یہ لوگ قرآن کریم کے یا تو حافظ ہوتے ہیں جنہوں نے قرآن کو بس طوطے کی طرح رٹ لیا ہے اور یا قرآن کریم کی دیکھ کر تلاوت کرسکتے ہیں یہ بڑی تعداد علم سے قریب قریب نا آشنا ہوتی ہے لیکن ملت کا حال اور مستقبل اسی کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے یہی ممبر محراب پر بیٹھتے ہیں مکتبوں مدرسوں میں انہیں کے ہاتھوں میں ملت کی نئی نسل کا مستقبل دے دیا جا تا ہے ،کتنے ہی مکتب ،مدرسے آپ کو ایسے مل جائینگے جن میں طلبہ اور طالبات کی تعداد پانچ سو ،سات سو اور ہزار ڈیڑھ ہزار تک ہے لیکن ملت کی نئی نسل کی اس بڑی تعداد کا علمی مستقبل جس کے ہاتھوں میں ہے وہ خود علم سے نا آشنا ہے ،اس کا تو تقرر ہی بس یہ دیکھ کر کیا گیا ہے کہ اس کے ماتھے پر بڑا سا نماز کا نشان ہے سر پر بارعب پگڑی اور ہاتھ میں تسبیح ہے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت مرعوب کن ہے اوروہ ایرانی تورانی قصوں پر مشتمل لچھے دار تقریر کر لیتا ہے باقی تعلیم کیا ہوتی ہے ،درس و تدریس کے اصول کیا ہیں ،درسی ادارے کی تنظیم سازی کیسے کی جاتی ہے اس سے وہ قطعی نابلد ہے اس طرح کے علم سے نا آشنا افراد کے اندر ایک چیز بخوبی پائی جاتی ہے وہ ہے حد سے زیادہ خود اعتمادی، خود کے عالم و فاضل ہونے کا احساس اور یہ احساس و رعونت کہ جب قرآن مجھ میں ہے تو’’ ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ وہ علم اور عالم کی تعریف نہیں سمجھتا مگر خود کو صاحب علم اور عالم وقت سمجھتا ہے وہ درس و تدریس کے اصول و ضوابط سے ناآشنا ہوتا ہے لیکن مدرسی اور معلمی کادعوے دار ہوتا ہے ۔
ایک صاحب پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک مسجد میں امام ہو گئے اور دس سالوں تک امامت کراتے رہے پھر ایک مکتب میں جہاں سات سو مسلم بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں وہاں نظامت تعلیم کے فرائض کی انجام دہی کے لئے جگہ خالی ہوئی تو انہیں اس خدمت پر لا بٹھایا گیا۔ 
گورنمنٹ پہلی کلاس کے بچوں کوپڑھانے کے لئے بھی ،کسی کا تقرراس وقت تک نہیں کرتی جب تک وہ گریجویشن کر نے کے بعد دو سالہ ٹریننگ کورس نہ کر لے جس میں اسے بچوں کی نفسیات سے واقف کرایا جاتا ہے،دس و تدریس کے اصول پڑھائے جاتے ہیں ،سیکھنے اور سکھانے کے گر سکھائے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ عمر کے کس مرحلے میں سیکھنے کا عمل کس طرح انجام پا سکتا ہے ،تعلیمی ادارے کی تنظیم سازی کے اصولوں سے واقف کرایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ،مگر جس قوم کا علمی مستقبل نا آشناؤں کے ہاتھوں میں دے دیا جائے وہاں پر اقبال جیسا شاعر اِن لفظوں میں نوحہ ہی کر سکتا ہے کہ۔
اُٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
اور
شکایت ہے مجھے یا رب خدا وندان مکتب سے 
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
ان دو رکعت کے اماموں کی زیادہ سے زیادہ قابلیت بس یہ ہوتی ہے کہ یہ اردو زبان کو لکھ پڑھ لیتے ہیں، اردو اس دور کی ایک اہم ترین زبانوں میں سے ہے اس کے دامن میں بھی علم کا ذخیرہ کم نہیں ہے اگر کوئی صاحب ذوق اسی کے سہارے اپنی علمی پیاس بجھانا چاہے تو وہ اردو کے دامن سے بھی علم کے موتی چن سکتا ہے لیکن ذوق مطالعہ کہاں سے لایا جائے جن کی تپائیوں پر صرف خطبات نامی کتاب ہی ہوتی ہوجس کے سہارے ممبر کے متبرک مقام پر بیٹھ کر ایرانی و تورانی قصوں کی گردان کرنا آسان ہوجائے اور وہ لوگ کہ جو خطبات کو بھی نہ چھوتے ہوں اردو کے اخبار میں تفصیلی فکری مضامین کو ہاتھ بھی نہ لگاتے ہوں جن کے اداروں میں آج کے اخبار کو دوپہر کے کھانے کا دستر خوان بنا لیا جائے کیا ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ملت کے سفینے کو پار لگادینگے ؟
راقم کا ایک مختصر مضمون، مشہور تہتر فرقوں کے نظریے کی تردید میں شائع ہوا جو درمیانی سائز کے صرف سولہ صفحات پر مشتمل ہے یہ موضوع آج کے دور میں امت کے لئے ایک سلگتے مسئلے کی طرح ہے ہر ایک کی زبان پر یہ بات ہے کہ جب تک امت میں اتحاد نہیں ہوگا اس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہونگے لیکن اتحاد کا طریقۂ کار کیا ہو اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا ،دوسرے یہ کہ امت میں تہتر فرقے بنانے کو سب نے ایمان کا حصہ بنایا ہوا ہے ،خاکسار نے اپنے مضمون میں اسی نظریے پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے ،اس حقیرنے یہ کتابچہ سیکڑوں کی تعداد میں ان دو رکعت کے اماموں تک پہنچایا تاکہ اسے پڑھ کر یہ ملت میں اتحاد کی کوشش کریں لیکن مجھے ان اماموں میں سے ایک فیصد بھی ایسے لوگ نہیں ملے جنہوں نے اسے پڑھا ہو ،جس سے بھی اس پر کسی کا رد عمل جاننا چاہا تو بس یہی جواب ملا کہ ابھی پڑھا نہیں کسی کسی نے یہ بھی کہا کہ تھوڑا سا پڑھا ہے ،ایسے رہنما ملت کا سفینہ ڈبوئینگے نہیں تو اور کیا کرینگے ۔؟
ان دو رکعت کے اماموں کو پہچانیں
اس وقت ملت ان’’دو رکعت کے اماموں ‘‘کے سکنجے میں ہے وہ ان کو پہچان کر جس قدر جلد ان سے چھٹکارا حاصل کر لے اتنا بہتر ہے ورنہ انہوں نے تو روز اول سے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو ایسے مقام پر لے جا کے ماریں گے جہاں پانی نصیب نہ ہو ۔
حاشا کلّا میرا یہ مطلب بالکل نہیں کہ مخلص علمأ کرام اور ہمدردان قوم وملت بالکل ہی عنقا ہو گئے ایسا نہیں ہے مخلص ماہرین اور خقیقی علماء دین موجود ہیں لیکن ان کی تعداد ان دو رکعت کے اماموں کے مقابلے اتنی کم ہے کہ مخلصین چاہ کر بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔
یہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت ہے جس کی جانب بہت سے مفکرین قوم توجہ دلا رہے ہیں مگر اُن کی کمزور آواز اِن کے شور نا ہنجار میں گم ہوکے رہ جاتی ہے ،اس کی تائید میں یہاں پر میں اردو روزنامہ اخبار ’’راسٹریہ سہارا‘‘مورخہ ۲فروری ۲۰۱۸ ؁ء کو ادارتی صفحے پر شائع ایک تفکیری مضمون کا حوالہ دینا چاہوں گا ،یہ مضمون مشہور زمانہ مسئلۂ ’’تین طلاق ‘‘پر ہے جس پر بھارت کی سرکار قانون بناکر اسے کالعدم کرنا چاہتی ہے ملک کی عدالت عظمی سے ایوان زیریں تک میں اس نے اس مسئلے پر مسلمانوں کو نیچا دکھاتے ہو ئے قانون پاس بھی کرا لیا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کی ڈپلومیٹک ہار ہوئی ہے جس سے مسلمانان ہند کے ایک بہت باوقار ادارے ’’مسلم پرسنل لأ‘‘کا وقار خاک میں مل گیا ہے ۔
مجھے حق نہیں کہ میں یہ اعلان کروں کہ اس متنازع مسئلے میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے ،اَیاایک مجلس کی تین طلاق تین ہونگیں یا ایک ہوگی یا ایک بھی نہیں ہوگی اس مسئلے کو اس کے ماہرین طے کریں ،لیکن مجھے یہ رائے ظاہر کرنے کا پورا حق ہے کہ اس مسئلے پر دشمن نے ملت کو اسی کے گھر میں گھس کر مات دے دی ۔
اخبار میں چھپے جس مضمون کا ابھی ذکر ہوا اس کے دو اقتباسات یہاں درج کئے جاتے ہیں، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور خود اپنی رائے قائم فرمائیں ،چنانچہ لکھا ہے ۔
ابھی مسلم پرسنل لا بورڈ کو تین طلاق کے مسئلے میں جو ناکامی حاصل ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کی رائے مسلمانوں کی ہمنوا نہیں 
ہے ،بورڈ اس عدلیہ کو بھی مطمئن نہیں کر سکا جس پر ابھی فرقہ پرست ہو نے کاالزام نہیں لگا ہے،یہ مسلم قیادت کی ناکامی ہے جو عدالت کے فیصلے اور پھر لوک سبھا کےمجوزہ بل کی شکل میں سامنے آیا ہے ،بورڈ کی قیادت ملک کے باشندوں کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی کہ تین طلا ق کے بعد مطلقہ کے مسئلے کا حل کیا ہے ؟ہندوستان کی مسلم قیادت غیر مسلم دنیا کو یہ سمجھا نے میں ناکام رہی کہ اسلام نے عورتوں کو برابری کے حقوق دئے ہیں تو تین طلاق کے بعد اسے بے سہارا چھوڑدینا کیوں ظلم نہیں کہلائےگا ،مسلم قیادت غیر مسلم دانشوروں کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی کہ دنیا کے دوسرے مسلم ملکوں میں اور مکہ و مدینہ کی سرزمین میں ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق کیوںمانا جاتا ہے (یعنی جو وہاں جائزہے وہ یہاں کیوں ناجائز ہے)اگر ائمہ اربعہ اس دور میں موجود ہوتے تو حالات کی کی تبدیلی کی وجہ سے کیا ان کا موقف بدل نہیں جاتا اور کیا ابن تیمیہ اور ابن قیم کے موقف کے قریب کوئی موقف نہ ہوتا ۔سعودی عرب کا سرکاری مسلک حنبلی ہے لیکن ابھی دو مہینے پہلے حرم  مکی میں حرمین کے ڈائرکٹر شیخ سدیس نے جمعہ کے خطبے میں ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قراردیاتھا ،حرم کی سرزمین میں بھی تین طلاق کو ایک مانا جا تا ہے ،ہندوستان کےجلیل القدر حنفی عالم دین علامہ سید سلیمان ندوی جب بھوپال میں قاضی تھے تو ان کےپاس ایک نو مسلم شخص کا کیس آیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی ،سید صاحب نے کہا کہ یہ تو نو مسلم ہے ابھی وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی نہ حنبلی ،انہوں نے تین کو ایک قرار دے کر رجوع کرنے کا اختیار دے دیا ،شیخ محمد عبدہ ،شیخ وہبہ زحیلی ،شیخ یوسف القرضاوی کی رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہے ،معلوم ہوا کہ تین طلاق
کو ایک مان لینا کوئی ایسا موقف نہیں ہے جسے گمراہی اور بے دینی قرار دیا جائے ۔کاش کہ بورڈ نے حالات کی سنگینی کو سامنے رکھ کر حکمت عملی اختیار کی ہوتی اور پرسنل لامیں مداخلت کا موقع فراہم نہ کیا ہوتا ۔
اس اقتباس کے بعد فاضل مضمون نگار کی اسی تحریر کا اگلا اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے جسے پڑھ کر آپ کے اوپر حقیقت حال کافی حد تک واضح ہو جا ئیگی ،چنانچہ لکھا ہے کہ۔
بورڈ میں صاحب فہم وفراصت اور دور اندیش علمأ موجود ہیں،ان میں سے بہت سے لوگوں کی رائے وہی ہے جو راقم السطور نے پیش کی ہے ،لیکن راقم السطور کو اس
بات کا علم ہے کہ بورڈ مختلف الخیال اور مختلف المسلک لوگوں کا ملغوبہ ہے ..............بورڈ کی قیادت نے اگر عقل سلیم اور فکر مستقیم پرچلنے کی کوشش
کی تو بورڈ ٹوٹ جائیگا اور بغاوت کی آواز بلند ہوگی ،بورڈ میں ایسے ارکان بھی ہیں جو کسی حال میں فقہی مسلک میں شمہ برابر بھی تنازل نہیں اختیار 
کرینگے ، وہ خود مقتول ہوجانا اور پوری امت کو مقتول بنا لینا گوارہ کر لینگے لیکن تین طلاق کو ایک طلاق مان لینا برداشت نہیں کرینگے کیوں کہ اس 
سے ایمان خطرے میں پڑجائیگا ،.....................بورڈ نے غلطی ضرور کی ہے لیکن بورڈ کرے بھی تو کیا کرے ’’ساقی کی بیگانہ روش پر کیا الزام
لگایا جا ئے ‘‘ہمیں بورڈ کی مجبوریوں کا بھی اندازہ ہے .............بے بسی کے ان حالات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت مسلم قیادت طائر زیر دام کی طرح 
نالۂ و شیون اور فراد و ماتم اور احتجاج میں مشغول ہے ۔
مضمون نگار ۔پروفیسر محسن عثمانی ندوی 
اب آپ سمجھ گئے ہونگے ان’’دو رکعت کے اماموں ‘‘کی حقیقت کو،اور ان کی طاقت کا بھی آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گیا اور یہ بھی آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ مذہبی میدانِ سلطنت میں اصل بادشاہت تو اِن دو رکعت کے اماموں کے ہی ہاتھ میں ہے ۔ 
اس تفصیل کے بعد موجودہ وقت میںآپ مسلم مذہبی تعلیمی اداروں اور تنظیموں میں عہدوں کے حصول میں مذہبی قائدین کے مابین جوتیوں میں بٹتی دال کا جائزہ لیجئے اور یہ دیکھئے کہ قال اللہ اور قال الرسول کی تسبیح پڑھنے والے اُس بنی کے وارث جس نے کہا ہے کہ جو عہدے کا طلب گار ہو اُسے عہدہ نہ دیا جائے ،لیکن انہوں نے تو عہدوں کے حصول کی خاطر مسلمانو ں کی ملی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو بھی لڑ کرٹکڑے ٹکڑے کرڈالا ہے حتی کہ اب یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو خالص اللہ والوں کی جماعت کہلا تی تھی اس میں بھی جوتم پتری کا دور دورہ ہے ۔
جمہوری اقدار کا بانی اسلام ہے رسول اللہ ﷺنے صحابۂ کرام کی فرمائش و کوشش کے بعد بھی اپنا ولیعہد طے نہیں کیا تھا ،ہاں اپنی زندگی میں خود حضرت ابو بکر کی امامت میں نماز پڑھ کر اپنی رائے ضرور ظاہر کر دی تھی باقی معاملہ غیر اعلانیہ طور سے عوام الناس پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا امیر طے کرلیں لہٰذا خلافت راشدہ تک تمام خلفاء راشدین قابلیت کی بنیاد پر منتخب ہوتے رہے نہ کہ وراثت کی بنیاد پر ،اور جہاں سے امارت میں وراثت کو دخل ہوا وہاں پر خلافت راشدہ کا خاتمہ تسلیم کر لیا گیا ،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام جمہوریت کو تسلیم کرتا ہے امارت میں وراثت کو تسلیم نہیں کرتا ،اب آپ اس روشنی میں اپنی تنظیموں اور اداروں کاجائزہ لے لیجئے اور مقابلتاََ غیر مسلموں کی تنظیموں اور اداروں کا جائزہ لے لیجئے ہماری اکثر تنظیمیں اور ادارے عہدے کی رسہ کشی میں دو لخت اور سہ لخت ہیں اور ان کی .....؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآنی تعلیمات ان کے پاس ہے اور منو اسمرتی کی ہمارے پاس ۔
اس وقت غیر مسلم برادران وطن کی سب سے بڑی تنظیم ملک کے اکثرحصے میں اقتدار پر قابض بی جے پی ہے اسّی کی دہائی تک اسے کوئی پوچھتا نہیں تھا ملک کی پارلیمنٹ میں اس کے دو ممبر ہوا کرتے تھے ،سب جانتے ہیں کہ اسے ملک بھر میں ہر دلعزیز بنانے کا سہرا ایل کے ایڈوانی کے سر ہے جو رتھ پر سوار ہو کر ملک کے کونے کونے میں گئے اور شہر شہر اور گاؤں گاؤں پارٹی کا پرچار کیا پھر جب پارٹی بڑی ہوگئی اور ملک کا اقتدار اس کے ہاتھوں میں آنے لگا تو دوسری صف کا ایک لیڈر نکل کر سامنے آگیا اور وزارت عظمی تک کی کرسی تک جا پہنچا ،خاص بات یہ ہیکہ پارٹی کا ٹوٹنا تو دور ،نہ کوئی رسہ کشی اور نہ کوئی ہلچل جب کہ وہ لوگ کوئی مذہبی لوگ نہیں تھے بلکہ عام دنیا دار تھے دوسری جانب اپنی ان تنظیموں اور اداروں کا حال ملاحظہ فرمالیں جو ہمارے مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں میں ہیں ۔
دلی کی شاہی جامع مسجد ہندوسانی مسلمانوں کا ایک بہت باوقار ادارہ ہے وہاں سے نکلنے والی آواز دور تک جاتی ہے اور خود میں اثر رکھتی ہے،یہ مسجد متحد ہ ہندوستان پر اپنے آہنی پنجوں سے حکومت کرنے والے مغلوں کی یاد گار ہے ،ان میں بھی اس کی تعمیر کا سہرا اُس بادشاہ کے سر ہے جس نے دنیا کو اُعجوبۂ عالم تاج محل جیسا شاہکار دیا اس لئے اس مسجد کو قدرتی طور پر رعب اور دبدبہ حاصل ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ مسلمانوں کا دینی اور مذہبی اثاثہ بھی ہے ،مسجد کا مقتدر اعلی اس کا امام ہوتا ہے ،امامت کا فریضہ کوئی معمولی شئے نہیں بلکہ یہ گدئرسول ہے اس کے لئے اسلام میں ایک مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے کہ امام کا انتخاب کیسے ہو حتی کہ اگر پانچ افراد بھی جماعت کرنا چاہتے ہیں تو بھی امام کے انتخاب کے لئے رہنما اصول موجود ہیں کہ ان میں اَشرَع ،اَعلَم ،اَقرأکی بنیاد پر امام منتخب ہوگا ،لیکن ہماری جامع مسجد میں امام کا انتخاب جمہوریت کے اس دور میں بھی وراثت کی بنیاد پر ہوتا ہے ،اور یہی حال ملت کے تمام اداروں کا ہے، ہماری تنظیموں میں صُدُور تا حیات ہوتے ہیں اور پھر بیٹے کا نمبر آتا ،کوئی بیٹے کو چیلینج کرے تو تنظیمیں ٹوٹ جا تی ہیں اور یہ سب جن کے ہاتھوں انجام پاتا ہے وہ مذہبی لیڈران بھی ہیں،ایسے مذہبی لیڈروں کے پیچھے چلنے والی ملت کیا یہ سمجھتی ہے کہ یہ قیادت ان کا بیڑہ پار لگا دے گی؟ 
ایک وضاحت
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ واضح کردینا بھی بہترسمجھتاہوں کہ اس مضمون میں دو رکعت کے اماموں کے متعلق راقم نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں میرا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب وہی باتیں ہیں جن کو بہت سے مفکرین کہتے رہے ہیں میں نے صرف ان کی باتوں کا تجزیہ کیا ہے کوئی تفصیل جاننا چاہے تو ’’کلیات اقبال ‘‘ میں علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘کا مطالعہ کر لے ،معلوم ہو جائیگا کہ شیطان اعظم اپنے چیلوں کو ملت اسلامیہ کو خوابیدہ رکھنے کے جو گُربتاتاہے، اس دور میں ’’دو رکعت کے امام‘‘ اس کام کو بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
ان دو رکعت کے اماموں نے عوام کو خدا سے کاٹاہے اور خود سے جوڑا ہے اس کام کے لئے دین میں کچھ نئی چیزیں شامل کر نے کی ضرورت ہوئی تو اس سے بھی گریز نہیں کیا گیا چنانچہ یہ بات پھیلائی گئی کہ کچھ ایسے عملیات بھی ہیں جن سے ماورائی طاقتیں جِن وغیرہ کو ’’دو رکعت کے امام‘‘ اپنے بس میں کر لیتے ہیں ا ور اس سے جو کام چاہتے ہیں لیتے ہیں، اس کے لئے مؤکل کی من گھڑت اصطلاح کا استعمال ہے ،یہ بھی مشہور کیا گیا کہ’’ دو رکعت کے امام‘‘ عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے ذریعے عارف باللہ اور فنا فی اللہ کے مرحلوں سے گذرتے ہوئے ابدال ،قطب اور قطب الاقطاب کے مرتبے تک پہنچ جاتے ہیں ،خود خدا بننے کے لئے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ اس کائنات میں چالیس ابدال چار قطب اور ایک قطب الاقطاب ہوتا ہے اور نظام کائنات کو یہی جھوٹے خدا کنٹرول کرتے ہیں ،ان سب چیزوں کی دین میں کوئی اصل نہیں ہے یہ محض فرضی واہمے ہیں جن کے لئے ان دو رکعت کے اماموں کے زر خیز دماغ نے مؤکل ،ابدال اور قطب جیسی اونچی اونچی بارعب اصطلاحات وضع کی ہیں
ہم نے اسلامی تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب مسلم فوجیں صحابئ رسول ’’سعد بن قاص‘‘ کی سربراہی میں ایران میں داخل ہو ئیں تووہاں کے حکمراں نے سعد بن وقاص کے سفیر حضرت مغیرہ بن شعبہ سے پوچھاکہ ہمارے ملک میں کیوں آئے ہو؟ اس پر مسلمانوں کے سفیر نے جواب دیا کہ ہم عوام کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر انہیں اللہ کی حکمرانی میں دینا چاہتے ہیں ،مطلب یہ کہ اسلام تو آیا ہی اس لئے تھا کہ عوام الناس کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر اللہ سے جوڑے ،مگر ان دو رکعت کے اماموں نے پھر سے عوام کو اپنی غلامی میں لے لیاہے انہوں نے عوام کو ڈرانے کے لئے مذکورہ قسم کی فرضی چیزیں گھڑ لی ہیں ،محض قرآن کریم ان کی خرد برد سے محفوظ ہے کیوں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے ،قرآن کاتوڑ انہوں نے یہ نکالا کہ عوام کو اسے سمجھنے پر پابندی لگا کر اس کے جملہ حقوق اپنے لئے محفوظ کر لئے ،آپ کو اگر ان دورکعت کے اماموں کے شر سے بچنا ہے تو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی پناہ میں آجائیے اور ان کے بھروسے نہ رہ کر قرآن و حدیث کی تفہیم میں خود کفیل ہو نے کی کوشش کیجئے۔ 
بات’’ مولوی ‘‘کی
یہ لفظ مولوی یا مولانا جو اس دور میں مذہبی تعلیم کے عالم کے لئے بطور خاص برصغیر میں مستعمل ہے اس میں سراسر یہودیت کی بو آتی ہے ،میں اس کے متعلق جو کچھ سوچتا ہوں وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ میں خود بھی وہی ہوں، میں نے بھی وہ تمام کتابیں پڑھی ہیں جنہیں پڑھ کر کوئی مولوی بنتا ہے اور مجھے بھی انہیں درسگاہوں کا شرفِ تلمذ حاصل ہے جہاں مولوی پیدا ہوتا ہے ،اور مجھے بھی اسی لفظ کے ساتھ پہچانا جاتا ہے جس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے ،مجھے اس پر بھی اصرار نہیں کہ اس لفظ کا جو پس منظر میں بیان کر رہاں ہوں وہی صحیح ہے اگر کوئی اس سے بہتر تشریح پیش کرسکے تو اسے قبول کرنے اور اپنی رائے سے رجوع کرنے میں بھی مجھے عار نہیں ۔
آئیے اب اس لفظ کا تاریخی پس منظر دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ یہ لفظ’’ مولوی ‘‘کہاں سے آیا، کب آیا اور کیسے آیا جس سے اس کا پس منظر جاننے میں مدد ملے گی ۔
اس لفظ کے استعمال کو جب ہم تاریخ کے صفحات میں تلاش کرتے ہیں تو ابتدائے اسلام سے ایک ہزار سال کے عرصے تک اس کا کہیں بھی استعمال نہیں ملتا ،اس کا استعمال پہلے پہل نمبر ایک تو یہ کہ سرزمین برصغیر ہند وپاک میں ہوتا ہے نمبر دو اس کے استخراج کا زمانہ وہ ہے جو مستشرقین (یہودی و عیسائی ماہرین تعلیم اسلامی)کے عروج کا دور ہے یعنی سترویں صدی عیسوی کے آس پاس کا دور،اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے چند مقدمات پر غور کیجئے جو ذیل میں درج ہیں ۔
نمبر ایک یہ کہ یہودی اپنے مذہبی لیڈر کو ربی کہتے ہیں اور ہم اپنے مذہبی لیڈر کو مولوی کہتے ہیں نمبر دو ۔رَب بھی اللہ کا نام ہے اور مولا بھی اللہ کا نام ہے دونوں قرآن کریم میں اللہ کے صفاتی نام کے طور پر مستعمل ہیں اور دونوں میں’’ی‘‘ ضمیر واحدمتکلم بمعنی میرا ہے اور جب ’’ی‘‘ کو’’ نا‘‘ سے بدلتے ہیں تو واحد متکلم جمع متکلم ہوجا تا ،تو کیا ربی اور مولوی دونوں میں کوئی مشابہاتی رشتہ ہے ؟کیا دونوں کی تخلیق کے پیچھے ایک طرح کا دماغ کارفرماں ہے؟ جب ہم اس کڑی کو اس لفظ کی تخلیق کے زمانے سے ملاتے ہیں تو جواب ہاں میں ملتا ہے،کچھ لوگ ’’ی‘‘ کو نسبتی مانتے ہیں جو سراسر غلط ہے کیوں’’ ی ‘‘کو تو نسبتی مانا جا سکتا ہے مگر مولانا کے’’ نا‘‘ کو نسبتی نہیں کہا جا سکتا،اگر ’’نا‘‘ ضمیر ہے تو ’’ی ‘‘ بھی ضمیر ہے، اور اس سے تو کسی طرح انکار ممکن ہی نہیں کہ اس کا موجد کوئی یہودی ہو یا مسلمان یہ لفظ یہودیوں کے مذہبی ٹائٹل کی کاپی تو ہے ،چاہے کاپی کرنے والے نے یہ کام دانستہ کیا ہو یا نادانستہ ،کیوں کہ کسی کے پیٹنٹ ٹائٹل کی نقل کرنے والا یہ کہہ کر چھوٹ نہیں سکتا کہ نقل کرنے والے کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا ایجاد کردہ ٹائٹل کسی نے پیٹنٹ کرایا ہوا ہے۔
آخری بات 
میں اس مضمون کی زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا اس لئے چند ایک ضروری باتیں عرض کر کے بات ختم کرتا ہوں ،اوپر مذکور مستشرقین(علوم اسلامی کے یہود و نصارٰی ماہرین فن ) کی تفصیل سے آپ کو لگا ہوگا کہ میں نے ملت کے زوال کو غیر مسلم دشمنانِ اسلام کے سر مڑھ دیا ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ ملت کا سفینہ ڈبونے میں دشمنوں کا ہاتھ ہے ۔
ہا ں ! زوال یافتہ قوموں کا یہی و طیرہ ہوتاہے کہ وہ اپنی کوتاہی کو دشمن کی سازش کا نام دے کر خود کو بری الذمہ قرار دیا کرتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ چور گھر میں گھس کر اس وقت چوری کرتا ہے جب صاحب مکان غفلت کی نیند سو جائے،اور میدان جنگ میں دشمن اس وقت آپ پر فتح پاتا ہے جب وہ آپ سے زیادہ طاقت ور ہو ،بیدار رہنے کے لئے نیند کو قربان کرنا پڑتا ہے ،اورخود کو طاقتور بنانے کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے،جب آپ کی ملت طاقتور تھی ،جب اس نے بغداد و قرطبہ میں علمی یونیورسٹیاں قائم کیں تھیں ،جب اس نے تالوں میں مقفل یونانی علوم کو رومی سلطنت سے حاصل کر کے ان کے ترجمے اپنی زبانوں عربی و فارسی میں کئے اور ان میں مہارت حاصل کی اور علمی مشن کو آگے بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو آپ آگے رہے ،پھر جب آپ غفلت کی نیند سوگئے اور غیروں نے آپ ہی کے علوم میں دسترس حاصل کر لی تو میدان ان کے ہاتھ آگیا جہاں تک سازشوں کی بات ہے دشمن کا کام تو سازش کرناہی ہے آپ اس کے خلاف کرلیں آپ کو کس نے روکا ہے لیکن سازش اس کی کامیاب ہوگی جس کے پاس دماغ ہوگا اور جو دماغ کا ستعمال کرنا ہی چھوڑ دے اس کا یہی حشر مقدر ہے جو ملت کا ہوچکا ہے کیوں عقل کا استعمال نہ کرنے والوں کو قرآن میں اللہ کے نزدیک دنیا کی بد ترین مخلوق کہا گیا ہے ۔ (سورہ انفال ۲۲)
قرآن میں ہے کہ انسان کو اسی قدر ملتا ہے جس قدر اس کی کوشش ہوتی ہے وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلّا مَا سَعیٰ(سورہ نجم ۳۹ )جب اس ملت میں شیخ بو علی ابن سینا ،شیخ فارابی ،ابو ریحان البیرونی ،ابن رُشد،ابن بطوطہ ،ابن خلدون ،اسحاق ابن حنین جیسے زندگی کھپانے والے تخلیق کار پیدا ہوئے تو علم کا میدان ملت کے ہاتھوں میں تھا لیکن جب اس نے آلۂ علم کتابوں کی چھپائی کو ہی اپنے لئے ناجائز قرار دے لیا تو علم ان کے پاس چلا گیا جنہوں نے اس کی قدر منزلت کی اور اس کے پیچھے اپنی زندگیاں گھپائیں، اسی طرح جب ملت کا سپاہی فاتح ہند’’ بابر‘‘ گولہ بارود ،توپ و تفنگ لے کر نکلا تو لاکھوں کی فوج کو پیچھے دھکیلتا چلا گیا اور جب ملت نے خود اپنے اوپر بندوق کا استعمال حرام قرار دے لیا تو طاقت کا توازن ملت کے پالے سے نکل کر حزب مخالف کے پالے میں چلا گیا ،خدائی قانون یہی ہے اور اس کے قوانین میں کوئی بدلاؤ نہیں ہوتاولن تَجِدَ لِسُنّتِ اللہِ تَحویلا۔ اور تم اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے (سور ہ فاطر ۴۳) لہٰذا جو اس کے قانون سے چشم پوشی کرے گا اس کا یہی حشر ہوناہے ۔
ایک گذارش 
آخر میں نونہالانِ ملت سے ایک گذارش کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ ’’یہ دو رکعت کے امام ‘‘ جنہوں نے ملت کا سفینہ ڈبویا ہے ان سے کسی طرح کی امید رکھنا عقلمندی نہیں ہے، لہٰذا انہیں اپنے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھئے، اپنے اندر دور اول کے مسلمانوں کی خصوصیات پیدا کیجئے آپ کی رہنمائی کے لئے قرآن اپنی اصلی شکل میں موجود ہے اس میں چاہ کر بھی کوئی ردو بدل نہیں کر سکتا کیوں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اسکے مالک نے لیا ہے ،ان دو رکعت کے اماموں کو پہچانئے ،ان کی پہچان کوئی مشکل نہیں ہے جو آپ کو اللہ سے کاٹ کر خود سے جوڑ نے کی کوشش کرے ،جو آپ کو مطالعہ قرآن سے روکے جو قرآن کے حکم لا تفرقوا(فرقے نہ بناؤ)کے خلاف امت کو فرقو ں میں تقسیم کرنے کی ضد کرے خود خدا بن کر اپنے کو جنتی اور باقی سب کو جہنمی کہے ،جو قرآن کریم میں بتائے گئے صدقات کے آٹھ مصارف سے چشم پوشی کر تے ہوئے صرف اپنی جیب کو ہی اس کا بہتر مصرف قرار دے ،جو کلمہ گو مسلم بھائیوں کو کافر کافر بکے اور امت کو امت نہ رہنے دے اور قرب قیامت کی نشانی تہتر فرقوں میں بٹنے بانٹنے کواپنی ذمہ داری سمجھ کر جلد از جلد قیامت لا نے پر بضد ہو تو سمجھ لیجئے کہ یہ وہ ہی دو رکعت کا امام ہے جو قیامت سے پہلے قیامت لانا چاہتا ہے ،یہ خود تومرے گا ہی سب کو لے کے مرے گا۔
لہٰذا ،آپ شیعہ ہوں یا سنی ،دیوبندی ہوں یا بریلوی ،سلفی ہوں یا خلفی یا کچھ اور ،اِن دو رکعت کے اماموں سے اعراض کرتے ہوئے اپنی اپنی مساجد میں ایک کمرہ مخصوص کیجئے جس میں فرش پر موٹی سی دری بچھا کر عمومی مطالعہ و مجلس کے لئے خاص کیجئے (الگ سے کمرہ نہ ہو تو یہ کام ایک سیف الماری کو مسجد کے کسی کونے میں کھڑا کر کے کیا جا سکتا ہے )امام و مؤذن کی تنخواہ و مسجدو دیگر اخراجات کے لئے ہر مسجد میں ایک فنڈ تو ہو تا ہی ہے جس میں صدقات و زکوٰۃ نہیں لئے جاتے ،اسی کی مانند ایک اور فنڈ قائم کیجئے جس میں زکوٰۃ و صدقات بھی لیجئے اور امداد بھی(ورنہ وہ صدقات جن کے قرآن میں آٹھ مصارف بتائے گئے ہیں وہ صرف ایک جگہ پہنچتی رہے گی اور بہت سے وہ افراد جو اس کے مستحق تھے وہ محروم ہی رہینگے) اسی فنڈ کی امدادی رقم سے ہر مسجد میں ملی افکار کا کم ازکم ایک روزنامہ اخبار اور ایک ماہنامہ نیز تاریخ اسلام و دیگر اثبات حق و ابطال باطل کے مضامین پرمشتمل کتابیں اور علاقائی زبان میں قرآن کی تفسیریں اور سیرت و تاریخ اسلام کی کتابیں خریدئے اسی فنڈ سے یہ ذمہ داری اٹھائیے کہ آپ کی مسجد سے متعلقہ گھروں میں کوئی غربت کا مارا نہ رہے ،کوئی غریب بیمار غربت کے سبب بنا علاج کرائے موت کے منھ میں نہ چلا جائے ،کوئی کاروبار نہ ہونے کے سبب بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو ،کوئی طالب علم کتابوںیا کورس یا فیس نہ ہونے کے سبب پڑھائی نہ چھوڑدے ،سردی کے موسم میں سب کے پاس ضروری کپڑے ہوں ،رمضان میں سب گھرو ں میں کم ازکم ا فطار کا سامان موجود ہواورعید پر ہر ایک کونئے کپڑے دستیاب ہوسکیں۔
مسجد محض نماز کے لئے نہیں بلکہ ان امور کے لئے بھی اتنی ہی ضروری ہے قرآن میں اکثر نماز و زکوٰۃ کا حکم ایک ساتھ ہے اور جس مقدار میں نماز کا حکم ہے اسی مقدار میں زکوٰۃ وصدقات اور انفاق فی سبیلِ اللہ کا حکم بھی ہے یہ اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ مذکورہ امور کو مسجد سے جوڑنا عین مقصود شریعت ہے اور جس طرح مسجد نماز کا مرکز ہوتا ہے ایسے ہی زکوٰۃ کا مرکز بھی مسجد کو ہی ہونا چاہئے ۔
مسجد کے مخصوص کمرے میں یا صحن مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کو مع تفسیر کے پڑھئے او ر اس بات کا جائزہ لیتے رہیئے کہ ہماری زندگی قرآن کی تعلیمات کے موافق ہے یا مخالف ، ائمہ حضرات سے مساجد میں صرف قرآن کی تعلیم کرائیے ،دیگر کتابوں کا خود مطالعہ کیجئے اور دوسروں کو مطالعہ کی ترغیب دلائیے ۔
متعلقہ مسجد کے دو چار بیدار مغز ملی جذبات کے حامل افراد کی ایک ایسی باڈی تشکیل دیجئے جو مذکورہ امور کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنائے کہ محلے کا ہر بچہ پڑھنے جاتا ہے ،جس کے پاس مسجد سے متعلق مسلمانوں کی تفصیلی فہرست رجسٹر میں درج ہو،جس کا اس بات پر بھی دھیان رہے کہ پڑوس میں کوئی بھوکا نہ سوئے اور کوئی بے روزگار ہے تو سب مل کر اسے روز گار سے جوڑ نے کی کوشش کریں،جس کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا بھی ہو کہ بستی کے ہر مسلمان کا وَوٹ ،راشن کارڈ اورشناخت نامہ بنا ہوا ہے اور انتخاب کے دن ہر ایک اپنے وَوٹ کاصحیح استعمال بھی کرتا ہے ،جو ملت سے مسلکی اور ذات پات پر مبنی اختلافات کے زہر کو کم سے کم تر کر نے کے لئے کوشاں ہواور مسلمان کو ایک اچھا مسلمان بننے کی تلقین کرے اور ان تین نکات کو اپنا مشن بنا لے جن کاذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے یعنی ۔
’’ اتحاد ملت‘‘ ’’ خدمت خلق ‘‘ اور ’’دعوت الی اللہ ‘‘ ۔ 
یہ سب وہ باتیں ہیں جن کا تقاضا قرآن ہم سے کرتا ہے اگر آپ کو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ سے قرآن کے بر خلاف کوئی تقاضا کیا جا رہا ہے تو اس مضمون کو دوبارہ پڑھ لیجئے۔
اپنا دماغ کسی کے پاس گروی نہ رکھئے جو شخص عربی میں قرآن کی بخوبی تلاوت کر سکتا ہے وہ اردو میں اس کا مطلب بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے ’’یہ دورکعت کے امام‘‘ بھی اسی قدر قابلیت رکھتے ہیں کہ اردو زبان کو بآسانی لکھ پڑھ سکتے ہیں آپ بھی یہ کام اردو میں یا کسی دیگر زبان میں کر سکتے ہیں اس لئے سیدھا قرآن سے جڑئے ،قرآن اللہ کا معجزاتی کلام ہے ایک فلسفی کے لئے اس میں ایسے فلسفیانہ نکات ہوسکتے ہیں جو رہتی دنیا تک کھلتے رہیں لیکن اس سے ہٹ کر قرآن کی تعلیمات بالکل واضح ہے ،غریبوں ،کمزوروں مظلوموں کی مدد کرو ،کم نہ تولو ،ماں باپ کا ادب کرو ،لین دین لکھ کر کرو،برائی کا بدلہ بھلائی سے دو ،ہمیشہ سچ بولو ،تکبر سے بچو ،حقوق العباد ،نماز روزے کی تاکید ،وراثت ،درایت ،رضاعت و خرید وفروخت کے مسائل وغیرہ وغیرہ اس طرح کے احکات وہ ہیں جو ایک عام آدمی بھی ترجمے سے پڑھ کر بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
یہ بات نوٹ کر کے رکھ لیجئے کہ’’ یہ دو رکعت کے امام ‘‘آپ کو قرآن کے اس مطلوبہ کام سے روکنے کی بھر پور کوشش کرینگے انہوں نے ہر اس شخص کا راستہ روکا ہے جس نے قوم کو بیدا رکرنا چاہا ہے اور ان کے ہاتھ میں ایک ہی ہتھیار ہے جس کا استعمال انہوں نے ان تمام مجددین پر کیا ہے جنہوں نے قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی حسن بنا ،سید قطب، جمال الدین افغانی ،سر سید احمد خاں ،اور علامہ اقبال ان کے عتاب کا شکار ہو چکے ہیں جن کو انہوں نے یہود و نصارا کا ایجنٹ قوم کا دشمن، منافق ،مشرک او ر کافرتک قرار دیا انہوں نے سر سید پر کفر کا فتوی لگایا لیکن وہ نہ رکے تو نتیجہ یہ ہے کہ آج انہیں کی زبان پر سر سیدکے لئے رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں انہوں نے علامہ اقبال پر کفر کا فتوی ٰ لگایا لیکن آج ان میں سے کسی کی تقریر اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک علامہ کے دو چار شعر اس کی تقریرمیں نہ آجائیں انہوں نے کبھی بجلی کے پنکھے کو اور ہاتھ میں گھڑی باندھنے کو ناجائز قرار دیا تھا آج ان چیزوں کے بغیر خود ان کا کام نہیں چلتا ،انہوں نے کبھی مائک کو ناجائز کہا تھا پھر وہ کب اور کیوں جائز ہو گیا معلوم نہیں ،پتہ نہیں یہ کب کس چیز کو حرام کردیں پھر وہ کب اور کیسے جائز ہو جائے ،اس لئے جائز کیا ہے اور ناجائز کیا ہے وہ آپ سیدھے قرآن سے دیکھئے اور اُن سے بھی یہی تقاضا کیجئے کہ وہ قرآن سے اور ان احادیث صحیحہ سے درس دیں جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہوں اور جو بات قرآن کے واضح حکم سے ٹکرائے پھر بھی یہ اسے ہی صحیح ٹھہرا نے کی کوشش کریں تو سمجھ لیجئے کہ کچھ ہے پردۂ ژنگاری میں ۔
ڈ اکٹر محمد اسلم قاسمی ،روڑ کی ،اتراکھنڈ
فروری ۲۰۱۸ 







  • आर्यसमाज के संस्थापक स्वामी दयानंद सरस्वती की पुस्तक सत्यार्थ प्रकाश के चौदहवें अध्याय का अनुक्रमिक तथा प्रत्यापक उत्तर(सन 1900 ई.). लेखक: मौलाना सनाउल्लाह अमृतसरी 
--------------------------------
मुकददस रसूल बजवाब रंगीला रसूल . amazon shop लेखक: मौलाना सनाउल्लाह अमृतसरी
  • '''रंगीला रसूल''' १९२० के दशक में प्रकाशित पुस्तक के उत्तर में मौलाना सना उल्लाह अमृतसरी ने तभी उर्दू में ''मुक़ददस रसूल बजवाब रंगीला रसूल'' लिखी जो मौलाना के रोचक उत्तर देने के अंदाज़ एवं आर्य समाज पर विशेष अनुभव के कारण भी बेहद मक़बूल रही ये  2011 ई. से हिंदी में भी उपलब्‍ध है। लेखक १९४८ में अपनी मृत्यु तक '' हक़ प्रकाश बजवाब सत्यार्थ प्रकाश''  की तरह इस पुस्तक के उत्तर का इंतज़ार करता रहा था ।

0 comments:

Post a Comment